021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چار ماہ سے قبل حمل کو ساقط کرنے کاحکم
68438جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ایک خاتون کے ہاں بچہ کی اکتوبر 2019 میں قبل از وقت ولادت  ہوئی ،جو فوت ہوگیا،اب وہ پھر امید سے ہے۔درج ذیل امور کی وجہ سے اسقاط حمل کرنا چاہتی ہے:

1۔کمزوری

2۔کالا یرقان کا علاج

3۔دیگر دوبچوں کی پرورش

ڈاکٹر کے مطابق دو ماہ کاحمل ہے،الٹرا ساؤنڈ میں دھڑکن محسوس کی گئی ہے جوکہ اندازا ہوتی ہے۔نیز خاتون کے مطابق حمل صرف  ڈیڑھ ماہ کا ہے۔کیا انہیں اسقاط حمل کی اجازت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نفخ ِروح(روح پھونکنے )سے پہلے بلا عذر حمل کو ساقط کرنا مکروہ  ِتحریمی ہےاور حمل میں چار ماہ کے بعد روح آجاتی ہے۔البتہ معتبر عذر کی بناء پر چار ماہ سے پہلے حمل کو ساقط کرنا جائز ہے۔ لہذا اگر خاتون بہت کمزور ہو اور بچے کی ولادت سے مزید صحت متأثر ہونے کا خطرہ ہو،اسی طرح کالا یرقان اس قدر شدید ہو کہ  حمل کو باقی رکھنے کی وجہ سے ماں کی جان کو خطرہ  ہو تو ان اعذار کی وجہ سے موجودہ حالت میں حمل کو ساقط کرنے کی گنجائش ہے۔لیکن اگر کمزوری قابل برداشت ہو  تو پھر ان اعذار کی وجہ سے حمل کو ساقط کرنا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح  دیگر بچوں کی پرورش بھی  کوئی معتبر عذر نہیں ہے۔لہذا اس عذر کی وجہ سےبھی چار ماہ سے پہلے حمل کو ساقط کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (3/ 176)
ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا اختلفوا فيه وكان الفقيه علي بن موسى يقول إنه يكره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم ونحوه في الظهيرية ۔۔۔۔ قال ابن وهبان فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل اه
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (5/ 241)
 وإن أرادت الإلقاء قبل مضي مدة ينفخ فيه الروح؛ اختلف المشايخ فيه؛ قال بعضهم: يحل لها ذلك؛ لأن قبل مضي المدة التي ينفخ فيه الروح لا حكم لها، فهذا والعزل سواء. وفي «فتاوى أهل سمرقند»: إذا أرادت إسقاط الولد فلها ذلك إذا لم يستبن شيء من خلقه؛ لأن ما لا يستبين شيء من خلقه لا يكون ولدا، وكان الفقيه علي بن موسى القمي يقول: يكره لها ذلك، وكان يقول: مآل الماء بعدما وصل إلى الرحم الحياة،……وفي نكاح «فتاوى أهل سمرقند»: امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها، وتخاف على ولدها الهلاك، وليس لأب هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر، هل يباح لها أن تعالج في إسقاط الولد؟ قالوا: يباح ما دام نطفة، أو علقة، أو مضغة لم يخلق له عضو؛ لأنه ليس بآدمي ....
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 669)
ويكره أن تسقى لاسقاط حملها  وجاز لعذر
البحر الرائق (3/ 215)
 وفي فتح القدير وهل يباح الإسقاط بعد الحبل يباح ما لم يتخلق شيء منه  ثم في غير موضع ولا يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما  وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح۔

  طلحہ بن قاسم 

     دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

09/06/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب