021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اقامت دین کیلئے ایک عام مسلمان کی ذمہ داریاں
72372معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

اقامت دین کےلئے ایک عام مسلمان کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

                                                                                        

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اللہ تعالی نے ہر انسا ن کو اس کی وسعت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے، اور وسعت سے زیادہ انسان نہ مکلف ہے اور نہ ہی آخرت میں اس پر اس کی گرفت ومواخذہ ہوگا۔امر بالمعروف یعنی نیک کاموں کا حکم دینا اور نہی عن المنکریعنی  برائیوں کی روک تھام، یہ امت کا ایک اجتماعی فریضہ  ہے، اس حوالے سے ایک مسلمان کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی ذاتی زندگی میں اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکامات اور سیرت طیبہ کو زندہ کرنے کی کوشش کرے،اور  اسکے بعد اپنے اہل وعیال اور دوسرے مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیتا رہے،احادیث میں اس  ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے تین درجے بیان کیےگئے ہیں:

پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی قوت وطاقت میسر ہو،چنانچہ یہ درجہ صرف مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے،اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے ،اور اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے  اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو تیسرا درجہ یہ ہے کہ پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے ،یعنی کسی خلافِ شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے ،اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے۔

            البتہ اس کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اس بات کے ساتھ

مشروط ہے کہ ان کی وجہ سے کسی فتنہ وفساد کے پیدا ہوجانے کا خوف نہ ہو،مثلاً:اگر یہ ظاہر ہو کہ فلاں شخص کو کسی نیک کام کی تلقین کرنے کی وجہ سے فتنہ کھڑا ہوگا ،یا جو شخص کسی برے کام کا مرتکب ہے اگر اُس کو اس برائی سے روکا گیا تو اس کے نتائج مزیدفتنہ وفساد کی صورت میں نکلیں گے،تو اس صورت میں اس فریضہ کی ادائیگی ضروری نہیں ہوگی۔

                             

حوالہ جات
أضواء البيان موافق للمطبوع (1/ 466)
( ويجب على الإنسان أن يأمر أهله بالمعروف كزوجته وأولاده ونحوهم وينهاهم عن المنكر . لقوله تعالى : ( يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا  وقوله  صلى الله عليه وسلم كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته الحديث،اعلم أن من أعظم أنواع الأمر بالمعروف كلمة حق عند سلطان جائر ۔
شرح كتاب الفتن من صحيح البخاري (6/ 13، بترقيم الشاملة آليا)
                                                                        قوله عليه الصلاة والسلام: ((من رأى منكم منكراً فليغيره)) التغيير لا بد منه، لكن على حسب
القدرة والطاعة ((بيده)) مرتبة أولى ((بيده))۔۔وما عدا ذلك ينتقل فيه إلى المرتبة الثانية وهي اللسان، على الإنسان أن يغير إن لم يستطع بيده فبلسانه، ((فبلسانه)) واللسان بالأسلوب المناسب بالطريقة التي لا تثير۔۔لكن تواطأ الناس على السكوت وهذه ضرائب السكوت، ينتشر المنكر بحيث يكون مما عمت به البلوى، لكن لو كان الأمر أول ما بدأ أنكر، ثم ظهر ثانية أنكر، وثالثة وهكذا، بحيث لا يراه مسلم إلا أنكره ماانتشرت المنكرات بهذا المستوى، ما ظهرت الفواحش إلى هذا الحد، وماذا نجني من المواطئة على السكوت؟ نجني العقوبة العامة، نسأل الله -جل وعلا- أن يلطف بنا((إذا أنزل الله بقومٍ عذاباً أصاب العذاب من كان فيهم)) يعني من الصالحين وغيرهم، ((ثم بعثوا على أعمالهم)) كلٌ يبعث على ما مات عليه من نية وعمل.

 وقاراحمد بن اجبرخان

 دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

۱۴/ ۷/ ۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب