021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف اشیاء پر لوگوں کی تصاویر چھاپنے کی کمائی کا حکم
70238جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص مختلف چیزوں (یعنی انگوٹھی، چائے کا کپ ،گھڑی، پرس، ٹی شرٹ وغیرہ) پر لوگوں کے اپنے نام وغیرہ لکھوا کر دیتا ہے،اسی طرح مختلف اشیإء پر لوگوں کی اپنی تصویریں چھپوا کر وہ اشیإء انہیں فروخت کرتا ہے،ایسے شخص کی کمائی کا کیا حکم ہے؟اور ایسے شخص سے کچھ کھانا یا اس کے ہاں دعوت پر جانا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اشیاء پر لوگوں کے نام یا کوئی تحریر لکھواکر دینا تو جائز عمل ہے،جس کی کمائی بھی جائز ہے،لیکن جاندارکی تصاویر چھپوانا ناجائز عمل ہے اور اس کی کمائی بھی ناجائز ہے،لہذا صورت مسئولہ میں جب یہ شخص یہ دونوں کام کرتا ہے تو اس شخص کی کمائی حلال و حرام سے مخلوط ہے،اس کے ذمے لازم ہے کہ اس  میں سےحرام ذریعہ آمدن کو چھوڑ کر توبہ واستغفار کرے اور اب تک اس ذریعہ سے جو آمدن ہوئی اس کا محتاط اندازہ لگاکر ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے۔

نیز ایسی صورت میں غالب کا اعتبار کیا جاتا ہے،یعنی اگر اس شخص کی اکثر کمائی حلال ذرائع سے ہوتی ہو تو اس کی دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہوگی اور اگر اکثر ذرائع آمدن حرام ہو تو پھر اس کی دعوت قبول کرنا یا اس کے پیسوں سے کچھ کھانا جائز نہیں ہوگا،البتہ اگر وہ بتادے کہ وہ حلال سے دعوت یا ہدیہ دے رہا ہے تو ایسی صورت میں گنجائش ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار "(ج 26 / ص 453) :
"وقال في النهاية : قال بعض مشايخنا : كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه ، وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة ، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم ، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه ا هـ".              
"الفتاوى الهندية" (5/ 342):
" لو أن فقيرا يأخذ جائزة السلطان مع علمه أن السلطان يأخذها غصبا أيحل له؟ قال إن خلط ذلك بدراهم أخرى، فإنه لا بأس به، وإن دفع عين المغصوب من غير خلط لم يجز قال الفقيه - رحمه الله تعالى - هذا الجواب خرج على قياس قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لأن من أصله أن الدراهم المغصوبة من أناس متى خلط البعض بالبعض، فقد ملكها الغاصب ووجب عليه مثل ما غصب وقالا لا يملك تلك الدراهم وهي على ملك صاحبها فلا يحل له الأخذ، كذا في الحاوي للفتاوى.
وفي فتاوى أهل سمرقند رجل دخل على السلطان فقدم عليه بشيء مأكول، فإن اشتراه بالثمن أو لم يشتر ذلك ولكن هذا الرجل لا يفهم أنه مغصوب بعينه حل له أكله، هكذا ذكر والصحيح أنه ينظر إلى مال السلطان ويبني الحكم عليه، هكذا في الذخيرة". 
"المبسوط للسرخسي" (10/ 197):
(وحجتنا) في ذلك أن الحكم للغالب وإذا كان الغالب هو الحرام كان الكل حراما في وجوب الاجتناب عنها في حالة الاختيار، وهذا لأنه لو تناول شيئا منها إنما يتناول بغالب الرأي، وجواز العمل بغالب الرأي للضرورة ولا ضرورة في حالة الاختيار، بخلاف ما إذا كان الغالب الحلال فإن حل التناول هناك ليس بغالب الرأي".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

15/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب