021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی طرف دیئے گئے زیور اورگھر کے اخراجات کا حکم
70229امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

محمد نعیم کی شادی قریب 30 سال قبل فوزیہ عمرانہ سے ہوئی۔ ابتدا میں  گھر کے تمام معاملات باہمی رضامندی سے ہوتے  رہے۔کچھ عرصے بعد فوزیہ عمرانہ نے محمد نعیم سے جاب کرنے  (ٹیچنگ) کی اجازت مانگی،محمد نعیم نے ابتدا میں منع کیا بعد میں ان دو شرائط  کے ساتھ اجازت دے دی۔

1۔صرف تبلیغ کی نیت سے ہی  ملازمت کی اجازت ملے گی، بچوں کو   جو بھی پڑھائےاس میں طلبہ کی اصلاح اور تبلیغ کی بھی نیت کرے۔کمائی  کی نیت بالکل نہ کرے۔

2. ان تین میں سے ایک شرط پوری کرے:

١  ا۔جو کمائے ،جمع نہ کرے،  سب گھر پر خود ہی خرچ کر ڈالے ۔

٢  ۲۔گھر پر خرچ نہیں کرنا چاہتی  تو نہ کرے، لیکن   پھر سارا اپنی   ذات پر  ہی خرچ کرے گی  ، گھر پر خرچ کر کے گھر کا نظام خراب نہیں کرے گی۔

٣  ۳۔جو کمائے اسے اللہ کی راہ میں  ہی لگا دے ، گھر  میں نہ   لائے ،تاکہ گھر کا نظم متاثر نہ ہو۔

    فوزیہ نے پہلی شرط اور دوسری شرط کو پہلی شق کے ساتھ تسلیم کر لیا اور جاب  شروع کر دی،اب نعیم اور فوزیہ  دونوں بغیر کچھ طے کیے گھر پر ، شوہر بیوی اور  اولاد پر مشترکہ خرچ کرتے رہے اور کوئی حساب کتاب نہ رکھا، کچھ عرصے بعد محمد نعیم کی آمدنی بعض وجوہات کی بنیاد  پر کچھ کم ہوئی  تو  بہت سے معاملات  میں تنازعات پیدا ہونے شروع  ہوئے ، جن کی صورتحال کچھ یوں ہے:

  • ناچاقی سے قبل   فوزیہ نے   کچھ معاملات میں زیورات خرچ کیے تھے ،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
    1. ایک پلاٹ خریدنے کی ضرورت پڑی تو فوزیہ نے پلاٹ خریدنے میں زیورات دے کر معاونت کی ،تاکہ اچھا  پلاٹ خریدا جا سکے، لیکن پھر اتفاق سے اس پلاٹ پر کسی نے   قبضہ  کر لیا اور وہ ہاتھ  سے نکل گیا۔
    2. ایک بار محمد نعیم کو قرض ادا کرنا تھا، تو انہوں نے فوزیہ سے زیورات یہ کہہ کر لیے  کہ ابھی مجھے قرض کی ادائیگی کے لیے دے دیں ،جب بعد میں  میرے پاس ہوں گے تو میں پھر آپ کو زیور بنوا دوں گا،اس وقت محمد نعیم   کے پاس اتنی وسعت ہے کہ یہ وعدہ پورا کر دے گوکہ اب تک نہیں بنوا سکا ۔
    3. گاڑی خریدنے  کی ضرورت پڑی تو فوزیہ نے یہ کہہ کر زیوارت دیے کہ اس کے بھی پیسے ملا کر چھوٹی گاڑی کی جگہ بڑی گاڑی لے لیں ، ان زیوارت کی کل قیمت 3 لاکھ میں مزید تین لاکھ محمد نعیم نے ملا کر ہونڈا سوک لے لی، پھر ہونڈا سوک  ساڑھے 5 لاکھ میں  بیچ دی گئی اور پھر 4 لاکھ کی نیسان خریدی گئی اور بقیہ ڈیڑھ لاکھ محمد نعیم نے اپنی مرضی سے خرچ کر دیے،اس عرصے میں  یہ سب رضا مندی سے ہوا  اور گھر میں گاڑی استعما ل ہوتی رہی، پھر یہ نیسان 2 لاکھ   کی  بکی اس وقت تک تنازعہ ہو چکا تھا ، اور فوزیہ   نعیم سے  اپنے ان تین لاکھ کا مطالبہ کر رہی تھی جو اس نے ہونڈا سوک میں لگائے  تھے ،محمد نعیم نے نیسان   2 لاکھ کی بیچ کر اس میں سے ڈیڑھ لاکھ  فوزیہ کو یہ  کہہ کردے  دئے کہ اصولا تو آپ کا حصہ اب 1 لاکھ بنتا ہے میں پھر بھی ڈیڑھ لاکھ میں آپ کو دیتا ہوں  ،اس کے بعد فوزیہ نے 3 لاکھ کا جھگڑا چھوڑ دیا۔
  •  maintenance   پر محمد نعیم ہی خرچ کرتے رہے  اور کچھ  بڑی maintenance    پر بھی  اس دوران محمد نعیم نے رقم لگائی، ہونڈا سوک پر  75  ہزار ا ور نیسان  پر 75 ہزار۔

 دونوں میں ناچاکی ہوئی تو فوزیہ   نے گھر چھوڑ کر الگ گھر لے لیا  اور ایک سال تک الگ رہی  پھر   دونوں میں درج ذیل معاہدہ ہوا جس کی بنیاد پر پھر فوزیہ گھر  واپس آئی:

  • محمد نعیم  گھر  کے استعمال کے لیے   بڑی گاڑی لے کر دے  گا اور گاڑی کے کاغذات   فوزیہ  کے نام کروائے گا۔
  • محمد نعیم فوزیہ اور بچوں کو تبلیغ میں جانے کے لیے نہیں کہے  گا۔
  • محمد نعیم بچوں  پر تربیت کے حوالے سے سختی یا ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرے گا۔
  • رہائش کے لیے اپنے  گھر کا بندوبست    اور  اس میں اضافہ و تعمیر  کی ذمہ داری محمد نعیم پر ہوگی اور گھر کا تمام خرچ فوزیہ اٹھائیں گی۔
  • محمد نعیم کا یہ مطالبہ تھا کہ  مجھے گھر کا سربراہ تسلیم کیا جائے گا اور بطور والد اور شوہر بیوی اور بچے میرا احترام کریں گے۔

    اس بنیاد  پر  محمد نعیم  نے  گاڑی  اس نیت سے خریدی  کہ میں مالک  ہوں اور گاڑی کے  محض کاغذات   بیوی کے نام کرا دئیے،   حسبِ وعدہ محمد نعیم نے گھر خریدا اور اس میں اضافہ و تعمیر  کی ذمہ داری  ادا کی ،بعد میں پھر دونوں میں سخت تنازعات ہونے لگے،  فوزیہ معاہدہ کے احترام کرنے والی شق کی خلاف ورزی کرنے لگی، قولا  و عملا معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا    اور اپنے خرچ کر دہ  زیورات اور سابقہ  نان نفقے کا مطالبہ کرنے لگی تو محمد نعیم نے فوزیہ کے معاہدہ کے ختم  کرنے کی وجہ سے   گاڑی واپس اپنے نام منتقل کرا  لی۔ 

 ( گاڑی فوزیہ کے نام کرانے  کا معاملہ خلافِ قانون جگاڑ سے ہوا تھا  اور یہ بات فوزیہ کے علم میں تھی ۔ بعد میں محمد نعیم کے نام منتقلی بھی جگاڑ ہی سے ہوئی۔ دراصل متعلقہ ادارے میں  یہی رواج ہے)

  اب تنازعات کی وجہ سے فوزیہ اور محمد نعیم میں الگ ہونے کی نوبت آپہنچی ہے ، فوزیہ  محمد نعیم سے یہ مطالبات کر رہی ہے:

  1. پلاٹ، گاڑی اور قرض میں جو  زیور میں نے دیا وہ   نعیم مجھے واپس کرے۔
  2. جاب کے بعد جب سے میں نے بھی گھر میں خرچ کرنا شروع کیا ، تب سے  اب تک چونکہ  بچوں ، بیوی اور گھر پر خرچ کرناصرف شوہر کی ذمہ داری تھی، اس  لیے میں نے جو بھی خرچ کیا وہ رقم کل ملا کر مجھے واپس کی  جائے۔

نوٹ: فوزیہ کاموقف یہ ہے کہ:"محمد نعیم اورمیراملازمت اور تنخواہ کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا،بس جو جو میں مطالبات کر رہی ہوں وہ آپ مجھے دیں،گاڑیآپ کے پیسوں کی ہے اور آپ نے اپنے نا م کروا لی ہے تو میں نے بھی سوچا کہ مجھے بھی اپنےوالدین کی طرف سے دئےگئے مال (زیوارت) کی حفاظت کرنی چاہیے"۔

 مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ اس ساری صورتحال میں محمد نعیم  پر  اپنی بیوی فوزیہ کے لیے  کن کن واجبات  کی ادائیگی شرعا لازم ہے۔         

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔چونکہ گھر کے اخراجات محمد نعیم بخوشی برداشت کررہا تھا،بیوی نے اپنی مرضی سے اضافی طور پر از خود خرچ کرنا منظور کیا،اس لیے ان اخراجات کی واپسی کے مطالبے کا بیوی کو شرعا حق حاصل نہیں۔

2۔جو زیور محمد نعیم نے بیوی سے یہ کہہ کر لیے تھے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد جب وسعت ہوگی تو تمہیں اس طرح کے زیور بنواکر دے دوں گا،محمد نعیم کے ذمے بیوی کو اس طرح کے زیور بنواکر دینا یاان زیورات کی قیمت لازم ہے۔

3۔جو زیور فوزیہ نے پلاٹ اور گاڑی خریدتے وقت محمد نعیم کو دیا تھا اس کے حکم کا مدار فوزیہ کی نیت پر ہے،لہذا اگر اس نے اس  نیت سے دیا تھا کہ جو چیز خریدی جائے گی وہ میاں بیوی کے درمیان مشترک ہوگی تو اب وہ اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتی،کیونکہ پلاٹ تو قبضہ ہوچکا جس میں میاں بیوی دونوں کا سرمایہ ضائع ہوگیا اور گاڑی میں بیوی کا جو سرمایہ تین لاکھ کا لگا تھا اس میں نقصان کے بعد جو رقم محمد نعیم کے ہاتھ لگی اس میں سے محمد نعیم اسے آدھی رقم یعنی ایک لاکھ کے بجائے جو بیوی کا حق بنتا تھا، ڈیڑھ لاکھ واپس کرچکا ہے۔

اور اگر بیوی نے اس وقت ہبہ کی نیت سے زیورات شوہر کے حوالے کیے تھے،لیکن بعد میں تنازعات پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی کی نیت بدلی جیسا کہ سوال میں مذکور تفصیل سے معلوم ہوتا ہے) کہ جب نعیم نے اسے دی گئی گاڑی کو واپس اپنے نام کروایا تو اس نے یہ موقف رکھا کہ جب گاڑی تم نے واپس لے لی ہے تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی والدین کی جانب سے ملنے والے زیورات کی حفاظت کرنی چاہیے( تو پھر اسے ان زیورات کی واپسی کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہے،کیونکہ میاں بیوی اگر ایک دوسرے کو کوئی چیز ہبہ کریں تو ایسے ہبہ میں شرعا رجوع کا حق نہیں ہوتا۔

اور اگربیوی نے قرض کی نیت سے دئیےتھے یا دیتے وقت اس کی مذکورہ تینوں باتوں میں سے کسی ایک کی بھی نیت نہیں تھی اور اس پر وہ قسم بھی اٹھاسکتی ہے کہ زیورات دیتے وقت اس کی نیت قرض کی تھی،اشتراک یا ہبہ کی نیت نہیں تھی،یا ان میں سے کسی کی بھی نیت نہیں تھی تو پھر یہ زیورات محمد نعیم کے ذمے قرض ہوں گے اور اس کے ذمے ان زیورات کی واپسی لازم ہوگی۔

حوالہ جات
"البحر الرائق " (3/ 197):
"(قوله ومن بعث إلى امرأته شيئا، فقالت هو هدية وقال هو من المهر فالقول قوله في غير المهيأ للأكل) ؛ لأنه المملك فكان أعرف بجهة التمليك".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(2/ 222):
"(سئل) فيما إذا كان على ذمي دينان معلوما القدر من جنس واحد لزيد المسلم غير أن أحد الدينين مشمول بكفالة والآخر مطلق عن الكفالة فدفع المديون المزبور لزيد قدرا معلوما من الدراهم ولم يعين عن أي الدينين هو ثم اختلفا فيه فقال الدائن هو عن الدين المطلق عن الكفالة وقال المديون هو عن الدين المشمول بالكفالة وفي التعيين نفع للمديون فهل يكون القول للذمي المديون في ذلك بيمينه ؟ (الجواب) : نعم يكون القول قول المديون؛ لأنه المملك وهو أدرى بجهة التمليك كذا في الأشباه والعمادية وغيرهما من المعتبرات قال بيري زاده القول للمملك في جهة التمليك أي فالقول قول الدافع بأي جهة دفع فسقط ذلك من ذمته كما في العمادية".
 
"الدر المختار " (5/ 707):
"(بعث إلى امرأته متاعا) هدايا إليها (وبعثت له أيضا) هدايا عوضا للهبة صرحت بالعوض أو لا (ثم افترقا بعد الزفاف وادعى) الزوج (أنه عارية) لا هبة وحلف (فأراد الاسترداد وأرادت) هي (الاسترداد) أيضا يسترد كل) منهما (ما أعطى) إذ لا هبة فلا عوض ولو استهلك أحدهما ما بعثه الآخر ضمنه، لأن من استهلك العارية ضمنها خانية".
"البحر الرائق " (3/ 199):
"من دفع إلى غيره دراهم فأنفقها ثم ادعى أنها قرض وقال القابض إنها هبة فالقول قول صاحب الدراهم. اهـ".
"الدر المختار " (5/ 681):
" (عارية الثمنين والمكيل والموزون والمعدود والمتقارب) عند الإطلاق (قرض) ضرورة استهلاك عينها (فيضمن) المستعير (بهلاكها قبل الانتفاع) لأنه قرض".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب