021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پوتے کی میراث کاحکم اور پاکستانی قانون
70204میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میں سرکاری ادارے میں سینئر سول جج کےساتھ کام کرتاہوں۔یہاں روزانہ درجنوں کیسز آتےہیں۔میرےعلم کےمطابق والد کی زندگی میں فوت ہونےوالی اولاد کےبچوں کو دادا کی میراث میں سےحصہ شرعی نہیں ملتا،لیکن مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1964 کےسیکشن 4 کےتحت والد کی زندگی میں فوت ہونےوالےبیٹے یابیٹی کی اولاد کو اس کےوالد کا حصہ دیاجاتاہے۔

اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت نےکالعدم قرار دیاتھا،لیکن سپریم کورٹ نےشرعی عدالت کےفیصلےکو فی الحال معطل کر رکھاہے۔

سوال یہ ہے کہ ماتحت عدالت کا جج واہلکار اس معاملے میں کیاکرنےکا پابند ہے،کیونکہ قانونی طور پر ماتحت عدلیہ صرف قانون پر عمل درآمد کروانےکا پابندہے اور قانون کی تشریح اعلی عدلیہ کا کام ہے۔ کیا ماتحت عدلیہ  کا جج یا اہلکار یہ کہہ کر پوتے پوتیوں کو حصہ دے، کہ وہ قانوناًایسا کرنےکاپابند ہے؟ یا وہ میراث کےاصل قواعد کےتحت فیصلےکرنےکا پابند ہے؟ شرعا ایک ماتحت کی اس موقع پر کیااورکس حدتک ذمہ داری بنتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی حکم یہی ہے کہ زندگی میں فوت ہونےوالی اولاد کےبچوں کو دادا کی میراث میں سے اس وقت حصہ نہیں ملتا،جب دادا کی نرینہ اولاد موجود ہو۔

شرعا آپ شریعت  اورآئین پر عمل کرنےکےپابند ہیں۔اور آئین کےدفعہ نمبر 2 میں لکھا ہے:

 (Islam shall be the state religion of Pakistan) کہ پاکستان کا مذہب اسلام ہوگایعنی کوئی بھی قانون اسلام کےمخالف پاس نہیں ہوگا،نیز قاضی پر سپریم کورٹ کےاس فیصلہ کی اتباع لازم ہے جو شریعت سے متصادم نہ ہو،لہذا اگر اس کا کوئی فیصلہ شریعت سےمتصادم ہو تو شرعا قاضی پر اس کی اتباع لازم نہیں ہیں،بلکہ وہ شریعت کاپابند ہے،اس لیےماتحت عدالت کاقاضی بھی میراث کےاصول اور قواعد کے تحت فیصلہ کرے۔اگر اس میں مشکل ہو توایسےکیسزمیں فیصلہ ہی نہ دے۔اگر ایسافیصلہ دےگا تویہ مسلمانوں کےحقوق کےغصب میں معاون شمار ہوگا۔اس کےساتھ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ حکام بالا تک  یہ پہنچائے کہ یہ قانون شریعت کےاصول اورمجمع علیہ(جس پر صحابہ کرام ؒ اورتمام ائمہ کرامؒ کا اتفاق ہے)  مسئلہ سے متصادم ہے،اس لیے اس کو معطل کرکےشریعت کےاصل مسئلہ کو قانون کاحصہ بنایاجائے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (6/ 2477)
باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن وقال زيد ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكر ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون ولا يرث ولد الابن مع الابن۔۔۔۔۔۔حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا وهيب حدثنا ابن طاوس عن أبيه عن ابن عباس قال  : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر )
تکملۃ فتح الملہم(2/18)
وقد ذکر الامام ابوبکر جصاص الرازی رحمہ اللہ فی احکام القرآن ،والعلامۃ العینی فی عمدۃ القاریؒ:الاجماع علی ان الحفید لایرث مع الابن۔
ولوکان مدار الارث علی الیتیم والفقراء الحاجۃ لما ورث احد من الاقرباء والاغنیاء وذہب المیراث کلہ الی الیتامی والمساکین ۔۔۔۔۔۔وان معیار الارث لیس ھو القرابۃ المحضۃ ولا الیتیم والمسکنۃ ، وانما ھو الاقربیۃ الی المیت۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 557)
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول هذا فصل اختلف المشايخ فيه قال مشايخ العراق الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث وقال مشايخ بلخ الإرث يثبت بعد موت المورث۔
سنن الترمذي (3/ 125)
 باب ما جاء لاطاعة لمخلوق في معصية الخالق 1759
 - حدثنا قتيبةحدثنا الليث عن عبيدالله بن عمر عن نافع عن ابن عمر قال : قال رسولالله صلى الله عليه وسلم : (السمع والطاعة على المرء المسلم فيماأحب وكره ما لم يؤمر بمعصية ، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليه ولاطاعة)
المعجم الكبير الطبراني (18/ 185)
حدثنا محمد بن عبد الرحمن المسروقي ثنا عمي موسى بن عبد الرحمن ثنا حسين بن علي الجعفي عن زائدة عن هشام بن حسان عن محمد بن سيرين عن عمران بن حصين Y أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ( لاطاعة لمخلوق في معصية الله )

  ضیاءاللہ

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 15صفر المظفر1442ھ      

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ضیاء اللہ بن عبد المالک

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب