021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دونمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا{جمع بین الصلاتین}
70316نماز کا بیاناوقاتِ نمازکا بیان

سوال

احناف کے نزدیک ظہرین یا مغربین کس صورت میں پڑھ سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

احناف کے نزدیک صرف دو مواقع پر دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا جائز ہے:

(1)حج کے موقع پر احرام کی حالت میں عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کو زوال کے بعد ظہر کے وقت میں پڑھنا،بشرطیکہ امام حج کی اقتداء میں پڑھی جائیں،خیموں میں ادائیگی کی صورت میں دونوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت پڑھنا لازم ہے۔

(2)مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو عشاء کے وقت میں پڑھنا،اس کے امام حج کی اقتداء شرط نہیں،بلکہ انفرادی طور پر پڑھنے کی صورت میں بھی انہیں ایک ساتھ پڑھا جائے گا۔

ان کے علاوہ سفر ہو یا حضر کسی بھی وقت کہیں بھی بلاعذر یا کسی بھی عذر کی بنا پر دو نمازوں کو ایک وقت میں اکٹھے پڑھنا جائز نہیں ہے، دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی صورت میں اگر کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی گئی تو وہ نماز ہوگی ہی نہیں، اور اگر کسی نماز کو اپنے وقت کے بعد پڑھا تو نماز تو بطور قضا ہو جائے گی، لیکن نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، البتہ شدتِ مرض کا عذر ہو  یا آنکھ نہ کھل سکے جس کی وجہ سے نماز قضا ہوجائے تو اس کا حکم جدا ہے۔

سفر میں بوقتِ ضرورت  ظاہری طور پر دو نمازوں کوجمع کرنے کی گنجائش ہے اس طور پر کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں پڑھا جائے اور دوسری کو اس کےشروع وقت میں،مثلا ظہر کی نمازاتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونےکے قریب ہو، اور ظہر کی ادئیگی کےبعد جب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر کی نماز شروع وقت میں ہی پڑھ لی جائے،اسی طرح مغرب اور عشاء میں بھی کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (1/ 381):
"(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافا للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلا لا وقتا (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة) كما سيجيء".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:"(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى - {فإذا بلغن أجلهن} [البقرة: 234]- أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح «عن ابن عمر أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان إذا عجل به السير صنع هكذا» " وفي رواية " ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء " كيف وقد قال - صلى الله عليه وسلم - «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى» رواه مسلم".
 

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

30/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب