021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی نیت کے بغیر بنوائے گئے طلاق نامے کا حکم
70380طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میں ماجد اقبال ولد محمد اقبال سکنہ مکان نمبر R-115،سیکٹر 8،نارتھ ناظم آباد کا رہائشی ہوں،میری شادی مسماة اسماء بنت ارشد اقبال سے دو سال قبل ہوئی ،اس شادی سے ہمارا ایک بیٹا ہے جس کی عمر آٹھ سال ہے،بیٹے کی پیدائش کے بعد میری زوجہ دل کے عارضہ میں مبتلا ہوگئی،بیماری کی وجہ سے اسے آرام کی ضرورت تھی اور وہ اپنے میکے چلے گئی اور تقریبا چھ ماہ سے اپنے میکے میں مقیم ہے۔

جناب مورخہ 2020۔10۔05 کو جب میں اپنی زوجہ کو لینے سسرال پہنچا تو میرے سسرال والوں نے میرے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اپنایا اور میری زوجہ کو میرے ساتھ نہیں بھیجا،جس کی وجہ سے میں بددل ہوگیا اور اپنی بیوی کو ڈرانے کی غرض سے طلاق نامہ بھیج دیا۔

جناب واضح رہے کہ میں ان پڑھ ہوں اور طلاق نامے کا پروفارما فوٹو اسٹیٹ والے سے بھروایا اور بغیر پڑھے اور بغیر دستخط کئے اسے سسرال بھجوادیا،مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ وارننگ تھی یا طلاق بائمی اور نہ ہی فارم بھرنے والے نے اس کی وضاحت کی،میں لاعلمی اور جذبات میں آکر طلاق نامہ دیکر آگیا۔

جناب قرآن و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں کہ غیر ارادی طور پر اور لاعلمی کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا،کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگئی یا میں اپنی زوجہ سے رجوع کرسکتا ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق نامہ بنواکر بیوی کو بھیجنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے،اگرچہ طلاق کی نیت نہ ہو اور چونکہ طلاق نامہ آپ نے خود بنوایا اس لیے اس پر دستخط کی بھی ضرورت نہیں تھی،دستخط کی ضرورت تب پڑتی ہے جب کوئی اور شوہر کی اجازت کے بغیر طلاق نامہ بنوائے،لہذا مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد شرعی حلالہ کیے بغیرموجودہ حالت میں آپ دونوں کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا، کیونکہ ارشادِ باری تعالی ہے:

{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]

ترجمہ:پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مطلقہ عورت)اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے،ہاں اگر وہ (دوسرا شوہر بھی) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیا نکاح کرکے) دوبارہ واپس آجائیں،بشرطیکہ انہیں غالب گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود قائم رکھیں گے اور یہ سب اللہ کی حدود ہیں جو وہ ان لوگوں کے لیے واضح کررہا ہے جو سمجھ رکھتے ہوں۔

شرعی حلالے کا مطلب یہ ہے کہ مطلقہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے نکاح کرلے اور ان دونوں میں ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوجائیں،اس کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ کسی وجہ سے اس عورت کو طلاق دیدے،پھر عورت عدت گزارے،عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ممکن ہوسکے گا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 246):
كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة".
"الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي" (9/ 6902):
"أما الكتابة المستبينة فهي نوعان: كتابة مرسومة: وهي التي تكتب مصدَّرة ومعنونة باسم الزوجة وتوجه إليها كالرسائل المعهودة، كأن يكتب الرجل إلى زوجته قائلاً: إلى زوجتي فلانة، أما بعد فأنت طالق، وحكمها: حكم الصريح إذا كان اللفظ صريحاً، فيقع الطلاق ولو من غير نية.
"صفوة التفاسير" (1/ 131):
"{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} أي فإن طلق الرجل المرأة ثالث مرة فلا تحل له بعد ذلك حتى تتزوج غيره وتطلق منه، بعد أن يذوق عسيلتها وتذوق عسيلته كما صرح به الحديث الشريف، وفي ذلك زجر عن طلاق المرأة ثلاثا لمن له رغبة في زوجته لأن كل شخص ذو مروءة يكره أن يفترش امرأته آخر .
{فإن طلقها فلا جناح عليهمآ أن يتراجعآ إن ظنآ أن يقيما حدود َﷲ} أي إن طلقها الزوج الثاني فلا بأس أن تعود إلى زوجها الأول بعد انقضاء العدة إن كان ثمة دلائل تشير إلى الوفاق وحسن العشرة".
"البحر الرائق " (3/ 257):
"ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة لأنه مخالف للإجماع كما حكاه في المعراج ولذا قالوا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه؛لأنه لا يسوغ فيه الاجتهاد لأنه خلاف لا اختلاف".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب