021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کی تقسیم
70369میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

بندہ کے چچا زاد بھائی غلام سخی ولد داوڑ خان 6 ماہ قبل وفات پاگئے ہیں، جس کے پسماندگان میں دو بیوائیں ہیں۔ پہلی زوجہ سے دو بیٹیاں ہیں، ایک شادی شدہ ہے اور ایک کی  شادی نہیں ہوئی جن کی عمر 15 سال ہے۔ دوسری زوجہ سے تین بچے ہیں۔ ایک بیٹا 7 سال کا ہے اور دو بیٹیاں ہیں، ایک کی عمر چار سال اور دوسری کی عمر تین سال ہے۔غلام سخی ولد داوڑ خان کا کل ترکہ میں سے دو دکان اور ایک مکان جو کہ 120 گز کا تین منزلہ ہے۔دونوں دکان اور مکان کا زمینی منزل کرایے پر دیے گئے ہیں۔

شریعت محمدیہ کی رو سے مرحوم کے ان ورثاء کے درمیان کل جائیداد جو کہ درج ہے کیسے تقسیم کی جائے گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

غلام سخی ولد داوڑ خان مرحوم نے بوقت انتقال مذکورہ دوکانوں اور مکان سمیت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولی و غیر منقولی سازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر کسی نے بطور احسان ادا کردئیے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد مرحوم کا وہ قرض ادا کیا جائے جس کی ادائیگی مرحوم کے ذمہ واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی(1/3) کی حد تک اس پر عمل کیا جائے۔ اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو کل 48 حصوں میں برابر تقسیم کرکے ہر زوجہ کو 3 حصے(6.25 فیصد)، بیٹے کو 14 حصے(29.1666 فیصد) اور ہر بیٹی کو 7 حصے(14.5833 فیصد) دیے جائیں۔ اس تقسیم کے اعتبار سے دوکان اور مکان کا جو حصہ جس وارث کے حصے میں آئے وہ اس کا مالک بن جائے گا۔ پھر اگر وہ چاہے تو اپنا حصہ دوسرے وارث کو فروخت بھی کرسکتا ہے اور ہبہ بھی کرسکتا ہے۔

حوالہ جات

سیف اللہ

            دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏                       90/03/1442ھ              

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب