021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عرق النساء کی تکلیف کی وجہ سے کرسی پر نماز پڑھنا
70378نماز کا بیانمریض کی نماز کا بیان

سوال

مجھے کچھ عرصے سے عرق النساء کی بیماری ہے جس کی وجہ سے نماز میں قیام میں ایک دو منٹ  ہی کھڑا رہ سکتا ہوں،جبکہ رکوع اور سجدہ پر بالکل قدرت نہیں رکھتا،جس کی وجہ سے نماز بیٹھ کر رکوع اور سجدہ اشارے سے ادا کرتا ہوں،مصلے پر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے ٹانگوں اور پاؤں میں تکلیف ہوتی ہے،نماز پڑھ سکتا ہوں،لیکن تکلیف کی وجہ سے جلدی جلدی پڑھنے کا دل کرتا ہے،جبکہ کرسی پر اطمینان  کےساتھ نماز ادا کرسکتا ہوں،سوال یہ ہے کہ مجھے مصلے پر بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہیے یا کرسی پر بیٹھ کر؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مرض کی وجہ سے آپ رکوع اور سجدے پر قادر نہیں،اس لیے آپ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں،بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بہتر تو یہ ہے زمین پر بیٹھ کر پڑھی جائے،کیونکہ اس میں عاجزی کا اظہار زیادہ ہے،لیکن چونکہ آپ زمین پر بیٹھ کر بھی آپ اطمینان سے نماز نہیں پڑھ پاتے،تکلیف ہوتی ہے اور دھیان بٹ جاتا ہے،اس لیے آپ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
"تحفة الفقهاء" (1/ 153):
"أما الفرض فيجوز على الراحلة بشرطين :
أحدهما: أن يكون خارج المصر سواء كان مسافرا أو خرج إلى الضيعة.
والثاني :أن يكون به عذر مانع من النزول عن الراحلة وهو خوف زيادة العلة والمرض أو خوف العدو والسبع أو كان في طين وردغة بحيث لا يمكن القيام فيه ونحو ذلك ولكن يصلي بالإيماء من غير ركوع وسجود ويجعل السجود أخفض من الركوع".
"بدائع الصنائع " (1/ 108):
" وكذلك الصحيح إذا كان على الراحلة وهو خارج المصر وبه عذر مانع من النزول عن الدابة، من خوف العدو أو السبع، أو كان في طين أو ردغة يصلي الفرض على الدابة قاعدا بالإيماء من غير ركوع وسجود؛ لأن عند اعتراض هذه الأعذار عجز عن تحصيل هذه الأركان من القيام والركوع والسجود، فصار كما لو عجز بسبب المرض، ويومئ إيماء، لما روي في حديث جابر - رضي الله عنه - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يومئ على راحلته ويجعل السجود أخفض من الركوع»".
"الدر المختار " (2/ 97):
(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوما".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعدا يومئ؛ ولو صلى قائما بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود. اهـ.
 قال في البحر: ولم أر ما إذا تعذر الركوع دون السجود غير واقع اهـ أي لأنه متى عجز عن الركوع عجز عن السجود نهر. قال ح: أقول على فرض تصوره ينبغي أن لا يسقط؛ لأن الركوع وسيلة إليه ولا يسقط المقصود عند تعذر الوسيلة، كما لم يسقط الركوع والسجود عند تعذر القيام".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب