021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیرم بورڈ کھیلنا
70424جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

کیا اس شرط پر کیرم بورڈ کھیلنا جائز ہے کہ فیس میچ ہارنے والا ادا کرے گا؟اور اگر اس قسم کی کوئی شرط نہ لگائی جائے،محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے تو کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس شرط کے ساتھ کیرم بورڈ کھیلنا کہ میچ کی فیس ہارنے والا شخص دے گا جوا ہونے کی وجہ سے جائز نہیں،اس میں جوا اس طور پر پایا جاتا ہے کہ کیرم بورڈ اور جگہ کے استعمال کی وجہ سے اصولی طور پر دونوں کھلاڑیوں پر اجرت لازم ہوتی ہے،لیکن ان کے درمیان یہ طے ہوتا ہے کہ جو ہارے گا وہ اپنی اجرت کے ساتھ دوسرے پر لازم اجرت بھی دے گا،اس طرح اگر جو جیت جاتا ہے اس کی رقم بچ جاتی ہے اور جو ہارجاتا ہے اسے اس کے ساتھ اضافی رقم بھی دینی پڑتی ہے۔

البتہ اس قسم کی شرط لگائے بغیر کبھی کبھار تفریح کے طور پر کھیلنے کی گنجائش ہے،بشرطیکہ اس  کی وجہ سے عبادات اور دیگر ضروری کاموں میں خلل نہ ہو،لیکن چونکہ اسے کھیلنے کا کوئی خاص جسمانی یا ذہنی فائدہ نہیں ہے،اس لیے اسے کھیلنے کی عادت بنالینا اچھا نہیں۔

حوالہ جات
"تکملة فتح الملھم"(4/ 435):
’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريما، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً.
والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

15/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب