021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بنجر ہوجانے کی صورت میں وقف کی زرعی زمین کو فروخت کرنے حکم
70432وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

وقف کی زرعی زمینوں میں سے جو زمین زراعت کے قابل نہ رہی ہواور پانی میسر نہ ہونے کے باعث سالوں سے سبخہ اور بنجر بن چکی ہو، کیا مہتمم صاحب کو شرعاً جواز ہے کہ ایسی زمین بیچ کراس کے پیسے مدرسہ کے انتہائی ضروری تعمیرات میں لگائے جائیں (جب کہ اس زمین کی موجودگی سے مدرسے کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا)۔ کیا ایسی زمین بیچی جاسکتی ہے ؟ یا اس کی فروخت مطلق طورپر شریعت کی رو سے ممنوع اور ناجائز ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

موقوفہ زمین کو اصلا ً بیچنا جائز نہیں ہے ۔البتہ اگر وہ زمین  اس قدر بنجر ہوچکی ہوکہ اس سے کسی قسم کا انتفاع حاصل کرنا ممکن نہ ہوتو ایسی صورت میں قاضی یا اس کے نمائندے (تحصیل دار،میونسپلٹی چئیرمین) کی اجازت سے اس موقوفہ زمین کو بیچ کر،اس کے بدلے دوسری زمین لینا جائز ہے ،گرچہ وقف کرتے وقت واقف نے استبدال کی شرط نہ لگائی ہو۔ نیز یہ دوسری زمین بھی وقف سمجھی جائے گی اور اس پر تمام احکامات وقف والے جاری  ہونگے ۔ لیکن مہتممِ مدرسہ کے لیے موقوفہ زمین کو بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی   رقم کو مدرسہ کے مصارف میں  کرچ کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
 فتح القدير (6/ 228)
 وفي فتاوي قاضيخان قول هلال وأبي يوسف هو الصحيح لأن هذا شرط لا يبطل الوقف لأن الوقف يقبل الانتقال من أرض الى أرض فإن أرض الوقف إذا غصبها غاصب وأجرى عليها الماء حتى صارت بحرا لا تصلح للزراعة يضمن قيمتها ويشتري أرضا أخرى فتكون وقفا مكانها وكذا أرض الوقف إذا قل نزلها بحيث لا تحتمل الزراعة ولا تفضل غلتها عن مؤنتها ويكون صلاح الأرض في الاستبدال بأرض أخرى وفي نحو هذا عن الأنصاري صحة الشرط لكن لا يبيعها الا باذن الحاكم وينبغي للحاكم اذا رفع اليه ولا منفعة في الوقف أن يأذن في بيعها إذا رآه أنظر لأهل الوقف۔
حاشية ابن عابدين (4/ 384)
( وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا
 والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 388)
لا يجوز استبدال العامر إلا في الأربع
(قوله: إلا في أربع) الأولى: لو شرطه الواقف. الثانية: إذا غصبه غاصب، وأجرى عليه الماء حتى صار بحرا فيضمن القيمة، ويشتري المتولي بها أرضا بدلا: الثالثة: أن يجحده الغاصب ولا بينة أي وأراد دفع القيمة، فللمتولي أخذها ليشتري بها بدلا.الرابعة: أن يرغب إنسان فيه ببدل أكثر غلة، وأحسن صقعا فيجوز على قول أبي يوسف وعليه الفتوى كما في فتاوى قارئ الهداية

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

16 ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب