70464 | پاکی کے مسائل | وضوء کے فرائض |
سوال
سنی پلاسٹ کی پٹی وغیرہ جب انگلی یا جسم کے کسی اور حصے پر لگی ہو تو وضو میں اس جگہ کا کیا حکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سنی پلاسٹ وغیرہ پٹی ہٹاکر اس جگہ کو دھونا زخم کے لیے نقصان دہ نہ ہو تو پٹی ہٹاکر اس جگہ کو
دھونا ضروری ہے، اور اگر دھونا مضر ہو لیکن اس پر براہِ راست مسح کیا جاسکتا ہو تو اس پر مسح کیا جائے، اور اگر اس جگہ پر براہِ راست مسح کرنا بھی نقصان دہ ہو تو پٹی کے اوپر مسح کیا جائے، اگر پٹی کے اوپر بھی مسح نقصان دہ ہو تو پھر اس پر مسح کیے بغیر بھی وضو ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ ان تمام صورتوں میں نقصان سے وہ نقصان مراد ہے جس سے زخم کو مندمل ہونے میں تاخیر ہو اور وہ معتدبہ نقصان ہو، معمولی تکلیف یا خیالی نقصان کا اعتبار نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار (1/ 278):
( وحكم مسح جبيرة ) هي عيدان يجبر بها الكسر ( وخرقة قرحة وموضع فصد ) وكي ( ونحو ذلك ) كعصابة جراحة ولو برأسه ( كغسل لما تحتها ) فيكون فرضا يعني عمليا لثبوته بظني وهذا قولهما وإليه رجع الإمام، خلاصة، وعليه الفتوى، شرح مجمع، وقدمنا أن لفظ الفتوى آكد في التصحيح من المختار والأصح والصحيح. ثم إنه يخالف مسخ الخف من وجوه ذكر منها ثلاثة عشر فقال: .… ( ويترك ) المسح كالغسل ( إن ضر وإلا لا ) يترك ( وهو ) أي مسحها ( مشروط بالعجز عن مسح ) نفس الموضع ( فإن قدر عليه فلا مسح ) عليها. والحاصل لزوم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر مسحه، فإن ضر مسحها، فإن ضر سقط أصلا.
رد المحتار (1/ 280):
قوله ( وإلا لا يترك ) أي على الصحيح المفتى به كما مر، قوله ( وهو الخ ) هذا الخامس، قوله ( عن مسح نفس الموضع ) أي وعن غسله، وإنما تركه لأن العجز عن المسح يستلزم العجز عن الغسل ح، قوله ( ولو بماء حار ) نص عليه في شرح الجامع لقاضي خان، واقتصر عليه في الفتح وقيده بالقدرة عليه، وفي السراج: أنه لا يجب، والظاهر الأول، بحر.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
17/ربیع الاول/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |