021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض کی ادائیگی کےلئےکسی تیسرےشخص کےبینک اکا ؤنٹ کواستعمال کرنا
70472خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

زید نےعمر وکو30,000روپےبھیجنا تھے،چنانچہ زیدنےبکر کےاکاؤنٹ میں تیس ہزار روپےجمع کرادیئےتاکہ بکروہ رقم عمرو کےحوالےکردے۔بکر نےوہ روپےاکاؤنٹ سےنکالےنہیں بلکہ اپنےذاتی روپےعمرو کو دیئے۔البتہ پیسےنکالنےپرچونکہ اکاؤنٹ سےچھ سوروپےکٹ جاتے ہیں اس لئےاس نےعمر کو چھ سوروپےکاٹ کراداکیے۔اب پوچھنا یہ ہےکہ:

۱)زید اگر عمرو کا مقروض تھاتویہ چھ سوروپےکس کواداکرنےہونگے؟

۲)زید اگر عمروکا مقروض نہ تھابلکہ عمروکےکہنےپربطور قرض یہ رقم اس کو دے رہا ہےاور عمرو نے زید کو یہ کہا ہے کہ مجھے یہ قرض براہ راست چاہیے ،بینک کے توسط سے نہیں ،تو اس صورت میں   یہ چھ سوروپےکس کےذمہ ہونگے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔قرض کی وصولی اور ادائیگی پر جو اخراجات آتے ہیں ،وہ ادا کرنا قرض لینے والے کی ذمہ داری ہے ۔چنانچہ اگر زید عمرو کا مقروض ہو تو زید کے ذمہ لازم ہے کہ قرض لی ہوئی  پوری رقم  عمرو کے حوالے کرے اور اس حوالگی میں جو اخراجات آرہے  ہیں یعنی 600 روپے وہ ادا کرنا زید کی ذمہ داری ہے ۔

2۔عمرو اگر زید سے قرض کا مطالبہ کررہا ہے اوربینک سے ادائیگی کی صورت میں کٹوتی کی وجہ سے اس نے یہ شرط لگائی ہےکہ مجھے قرض کی رقم براہ راست چاہیے ،پھر بھی زید اس کو قرض کی رقم بینک کے توسط سے بھیجتا ہے تو بینک کی گئی کٹوتی قرض لینے والے کے ذمہ لازم نہیں ہوگی ،بلکہ مقرِض کے ذمہ لازم ہوگی۔

حوالہ جات
المعیار الشرعی رقم 18(مادۃ 4/2)
مصروفات التسلیم والإستیفاء فی عقد القرض التی تتعلق بتوفیۃ إحدی الوحدات  القیاسیۃ العرفیۃ ونحو ذلك تکون علی المقترض ۔
الفتاوى الهندية (3/ 628)
وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى رجل دفع إلى رجل ألف درهم وأمره أن يعطيه غريمه فأعطاه المأمور غيره من عنده أو باعه به ثوبا أو كان للمأمور عليه ألف درهم فجعله قصاصا منه فهذا كله جائز ولا يكون متطوعا فيما أدى۔
حاشية ابن عابدين (3/ 789)
إن الديون تقضى بأمثالها أي إذا دفع الدين إلى دائنه ثبت للمديون بذمة دائنه مثل ما للدائن بذمة المديون فيلتقيان قصاصا لعدم الفائدة في المطالبة ولذا لو أبرأه الدائن براءة إسقاط يرجع عليه المديون كما مر۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

18 ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب