021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ولی کی اجازت کے بغیرخفیہ نکاح کاحکم
70486نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

میں نے ایک لڑکی سے خفیہ نکاح کیاہے، اس لڑکی کی عمر22سال ہے ،گھر والے اس کی مزید دو،تین سال تک شادی نہیں کرنا چاہتے تھے، لڑکی کے والد فوت ہوچکے ہیں، لڑکی کی والدہ اوربھائی کافی مالدارہیں جبکہ میں ابھی پڑھ رہاہوں،دینداری میں تقریباً ہم دونوں برابرہیں،ہم لوگ ذات کے شیخ ہیں اوروہ لوگ یوسف زئی ہیں۔یادرہے کہ ابھی صرف نکاح ہوا ہے،رخصتی نہیں ہوئی۔

اب میرے دو سوال ہیں:

١۔ کفؤکے اعتبارسے ہمارا نکاح منعقد ہوگیاہے ؟

۲۔ کیا لڑکی والے عدالت کے ذریعے نکاح ختم کرنے کا شرعی یا قانونی حق رکھتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔ شریعت میں نکاح کےوقت لڑکے کا لڑکی کیلئے چند چیزوں میں ہم پلہ ہونا ضروری ہوتاہے، اس کو اصطلاح  میں کفاءت کہتے ہیں۔ فقہاءِ کرامؒ نے لڑکے کا لڑکی کے کفو ہونے کے لئے کئی چیزوں کا اعتبار کیا ہے۔ نسب یعنی خاندانی شرافت میں، دینداری یعنی احکامِ شریعت کی پابندی کرنےمیں، مال میں (یعنی لڑکا اتنا مالدار ہو کہ وہ بیوی کا مہرِ معجّل اور بیوی کانفقہ دے سکتا ہو) اور پیشے میں (یعنی لڑکے کا پیشہ ایسا ہو کہ عرف میں وہ لڑکی والوں کے پیشہ سے زیادہ حقیر اور کمتر نہ سمجھا جاتا ہو)۔ لڑکے کا خاندان اگر ان امور میں لڑکی کے خاندان کا ہم پلہ ہو،تو لڑکا، لڑکی کا کفؤشمار ہوتا ہے۔ (اِس سلسلے میں مزید تفصیل کیلئے بہشتی زیور حصہ چہارم،باب نمبر چار کا مطالعہ فرمائیں)

ولی کی اجازت کے بغیرنکاح  کرنا شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے،اس لیے کہ شریعت نے جہاں نکاح میں عورت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھا ہے وہاں ساتھ راستہ بھی بتا دیا کہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں انجام پذیرہوں، اسلام نے جہاں اس بات کی اجازت دی کہ  ایک مسلمان خاتون کا نکاح بلاتمیز رنگ ونسل، عقل وشکل اور مال وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے تاکہ اس عقد کے نتیجے میں تلخیوں، لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی ایک حدیث میں تو  ولی کی اجازت کے بغیرکئے نکاح کو باطل تک کہاگیاہے ،اولیاء کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی میں نکاح سے پہلے کئی حرام امورکا ارتکاب کیاجاتاہے جیسے بدنظری ، ناجائزاختلاط ،اجنبی کے ساتھ خلوت اوربعض اوقات بدکاری تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے، اس لیے شریعت کی نظر میں ایسانکاح  بالکل پسندیدہ نہیں ہے ،تاہم اگر کسی نے ایسی غلطی کرہی لی ہو اورلڑکا اس کے کفؤ(برابری)کا ہوتونکاح بہرحال منعقدہوجائےگا۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے۔ ارشادر بانی ہے:

حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

                                                 وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُن [البقرة: 232]

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا:

                                                 لا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَاْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَارَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ اِذْنُھَا قَالَ أَنْ تُسْکُتَ( صحيح البخاري کتاب النکاح  7/ 17ط الشاملۃ)

ایک دفعہ حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپﷺ نے اس کا نکاح فسخ کر دیا۔

عَنْ خَنْسَایَ بِنْتِ خِدَامٍ الْأَنْصَارِیَّۃِ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ ثَیِّب ُْ‘  فَکَرِھَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَھا (صحيح البخاري کتاب النکاح (9/ 21)

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے:

                    حضرت عبداللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے ایک کنواری لڑکی حضور اکرمﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی اس کے باپ نے اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا ہے تو آپﷺ نے اس کو اختیا ر دیا۔ (یعنی اگر وہ چاہے تو نکاح کو فسخ کر دے

حضرت عروہؓ سے روایت ہے:

                                                 أن عمر بن الخطاب قال: «يعمد أحدكم إلى بنته فيزوجها القبيح، إنهن يحببن ما تحبون»، يعني: إذا زوجها الدميم كرهت في ذلك ما يكره، وعصت الله فيه (مصنف عبد الرزاق الصنعاني (6/ 158)

’’حضرت عمرؓ بن خطابؓ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے کرا دیتا ہے (ایسا نہ کرو) بے شک وہ عورتیں بھی وہی پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو۔ ‘‘

اور حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی کتب حدیث میں موجود ہے:

لَا یُکْرِ ھَنَّ أَحَدُ کُمُ ابْنَتَہُ عَلَی الرَّجُلِ الْقَبِیْحِ فَاِنَّھُنَّ یُحْبِبْنَ مَاتُحِبُّونَ(تاریخ المدینۃ ۲/769)

علامہ موسیٰ الحجاوی المقدسی (م۔ 968ھ) شیخ الاسلام ابن جوزیؒ (م۔ 597ھ) کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قال ابن الجوزی فی کتاب النساء ویستحب لمن أراد أن یزوج ابنتہ أن ینظرلھا شابا مستحسن الصورۃ ولا یزوجھا دمیما وھوالقبیح(الاقناع فی فقہ الامام احمد۳/۱۵۷)

         لہذامسئولہ صورت میں اگرجملہ بالا امورمیں آپ مذکورہ لڑکی کے برابرتھے توکفؤہونے کی وجہ سے آپ کا نکاح منعقد ہوگیاتھا اوراگر مذکورہ بالاتمام چیزوںمیں سے کسی ایک چیز میں بھی برابری نہ تھی تو نکاح غیرکفؤمیں ہونے کی وجہ سے حنفیہ کے راجح قول کے منعقد نہیں ہوا۔

          ۲۔ اگرمذکورہ نکاح کفؤمیں ہوا ہو تو پھر اولیاء کواعتراض کا حق نہیں ،اوراگرغیرکفؤ میں ہوا ہو تو پھر نکاح چونکہ راجح قول کے مطابق منعقدہی نہیں ہوالہذا اولیاء کو اعتراض کا حق حاصل ہے اورضرورت پڑنے پر وہ عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں ۔

حوالہ جات
وفی     سنن أبى داود-ن - (2 / 174)
عن أبى هريرة عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال « تنكح النساء لأربع لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك ».
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 86)
(وَتُعْتَبَرُ) الْكَفَاءَةُ لِلُزُومِ النِّكَاحِ خِلَافًا لِمَالِكٍ (نَسَبًا)(و حرية وإسلاما) (وَدِيَانَةً)  (ومالا)  بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف، وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كفايتها لو تطيق الجماع (وحرفة) فمثل حائك غير كفء لمثل خياط ولا خياط لبزاز وتاجر ولا هما لعالم وقاض.
الفتاوى الهندية - (1 / 290)
الكفاءة تعتبر في أشياء (منها النسب) (ومنها إسلام الآباء)(ومنها الحرية)(ومنها الكفاءة في المال)(ومنها الحرفة).
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 186)
 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يَسْتَأْذِنُهَا أَبُوهَا فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا "
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 84)
 أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا مِنْ كُفْءٍ لَزِمَ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَإِنْ زَوَّجَتْ مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ لَا يَلْزَمُ أَوْ لَا يَصِحُّ بِخِلَافِ جَانِبِ الرَّجُلِ فَإِنَّهُ إذَا تَزَوَّجَ بِنَفْسِهِ مُكَافِئَةً لَهُ أَوْ لَا فَإِنَّهُ صَحِيحٌ لَازِمٌ.
وفی سنن ابن ماجة للقزويني - (ج 2 / ص 172)
عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال : يا رسول الله ! إن سيدا زوجنى أمته ،وهو يريد أن يفرق بينى وبينها ، قال ، فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فقال " يا أيها الناس ! ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق " .
وفی إرواء الغليل للالبانی- (ج 7 / ص 109)
قلت : ولعل حديث إبن عباس بمجموع طريقيه عن موسى بن أيوب يرتقى إلى درجة الحسن . والله أعلم . ثم وجدت له طريقا ثالثة أخرجه الطبراني في ( المعجم الكبير )
عن عائشہ عن البنی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال : ایّما امرأۃ نکحت بغیر اذن و لیّھا فنکا حھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فان دخل بھا فلھا المھر بما استحلّ من فرجھا، فان اشتجروا فالسّلطان ولّی من لّا ولیّ لہ. (مسند احمد:۴۹۹)                                                                                                                                                                                                                                                                                            
عن سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ :
أیما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیّھا فنکاحھا باطل، لا نکاح الّا باذن ولّی. (السنن الکبری للبیھقی: ۱۱۱/۷، وسندہٗ صحیح) قال الامام البیھقی رحمہ اللہ ھذا اسناد صحیح.
عن ابی موسی الاشعری عن البنی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: لا نکاح الا بولّی. (المستدرک للحاکم: ۱۷۳ح، ۲۷۱۷، وسندہٗ حسن والحدیث صحیح)صححہ امام ابن الجارود(۷۰۲)
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 186)
 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يَسْتَأْذِنُهَا أَبُوهَا فِي نَ فْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا "
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 84)
 أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا مِنْ كُفْءٍ لَزِمَ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَإِنْ زَوَّجَتْ مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ لَا يَلْزَمُ أَوْ لَا يَصِحُّ بِخِلَافِ جَانِبِ الرَّجُلِ فَإِنَّهُ إذَا تَزَوَّجَ بِنَفْسِهِ مُكَافِئَةً لَهُ أَوْ لَا فَإِنَّهُ صَحِيحٌ لَازِمٌ.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

18/3/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب