021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم بچوں کی کفالت
70524نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

میرےبھائی  مشکوراحمد کا انتقال ہوا ہے۔ان کی بیوی کو ایک سال پہلے طلاق مل چکی ہےاور عدت بھی گزرچکی ہے۔ان کے تین بچے ہیں ۔دو بیٹے 13 اور 14 سال کے ہیں اور ایک بیٹی 11 سال کی ہے۔یہ بچے ماں کے ساتھ ہیں۔ان کی کفالت کون کرے گا؟کیا چچا ان کی کفالت اور والد کی طرف سے ملنے والی جائیداد کی حفاظت کرسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کے انتقال کے بعدبچوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔یہاں تک کہ بچہ کھانے پینے اور کپڑے پہننے جیسے کام کاج خود کرنے لگ جائے اور بچی بالغ ہوجائے۔اس کے بعد ماں کا حق ختم ہوجاتاہے۔عام طور بچی نو سال کی عمر میں اور بچہ سات  سال کی عمر اس قابل ہوجاتا ہے۔اس کے بعد بالغ ہونے سے پہلےان کی تعلیم وتربیت اور اموال کی حفاظت کی ذمہ داری دادا ،اگر وہ نہ ہو تو پھر چچا کی ہے۔اور بالغ ہونے کے بعد ان کو اختیار ہے۔

صورت مسئولہ  چونکہ بچوں کی عمر زیادہ ہے اور بلوغ کی عمر تک پہنچ چکے ہیں ،اس لیے اب ان کو اختیار ہے،وہ جہاں چاہے اپنی والدہ کے ساتھ یا چچا کے ساتھ ،رہ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الطحطاوی رحمہ اللہ :
 ( وهو خمس عشرة سنة على المفتي به ) وهو قولهما ورواية عن الإمام إذ العلامة تظهر في هذه المدة غالبا فجعلوا المدة علامة في حق من لم تظهر له العلامة وأدنى مدة يعتبر فيها ظهور العلامة إثنتا عشر سنة في حقه وتسع سنين في حقها فإذا بلغا هذا السن وأقرا بالبلوغ كانا بالغين حكما لأن ذلك مما يعرف من جهتهما.
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح - (ج 1 / ص 69)
قال العلامۃ ابن عابدینرحمہ اللہ :
وفي شرح المجمع : وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب ، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه .وفي الخلاصة وغيرها : وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى ، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية .
(رد المحتار :ج 13 / ص 54)

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۲۳/ربیع الاول   ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب