70515 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
ایک جامع مسجد کے خطیب و امام کسی مخلوط نظام تعلیم میں پڑھاتے ہیں ،جس میں میٹرک تک لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں اور سکول ٹیچر بھی مرد و عورتیں ہیں۔ اب اس امام پر مقتدی اعتراض کرتے ہیں،لہٰذا اس امام کی امامت کا کیا حکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اولاً تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مخلوط تعلیمی نظام ہی شرعاً درست نہیں ہے ،مرد استاذ کا بالغ یا قریب البلوغ لڑکیوں کو پڑھانا، اسی طرح کسی عورت کا بالغ یا قریب البلوغ لڑکوں کو تعلیم دینے میں بھی شرعاً قباحت ہے۔لیکن اگر کوئی شخص مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھا رہاہے اور اس کو غالب گمان یہ ہے کہ اس کی کوشش سے اس ادارے میں شرعی ماحول قائم ہوجائے گا تو اس کا جانا درست ہوگا ۔نیز درج ذیل شرائط کا سختی سے لحاظ رکھنا ہوگا:
۱۔ اپنااصلاحی تعلق کسی اللہ والے متبع سنت اورمتقی عالم سے رکھے ،اوروقتافوقتاان کواپنے حالات بتاکراپنی اصلاح کروائے۔ ۲۔ممکن ہوتولڑکوں کولڑکیوں سے الگ ایک طرف بٹھایاجائے ۔ ۳۔ توجہ لڑکوں کی طرف رکھے ،لڑکیوں کو قصدانہ دیکھے ۔ ۴۔ بلاضرورت درسگاہ میں یاباہرلڑکیوں سے باتیں نہ کرے ۔ ۵۔ لڑکیوں کوپردے کی ترغیب دیتارہے ۔
6۔تنہائی میں نا تو کسی لڑکی کو پڑھائے اور نہ ہی تنہائی میں بلاضرورت کوئی بات کرے اس لیے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لایخلون رجل بامرأۃ الاکان ثالثہماالشیطان". ترجمہ :کوئی مردکسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہانہ بیٹھے اس لئے کہ تیسراوہاں شیطان ہوتاہے ۔
لیکن اگرکسی کاذہن پختہ اورطبیعت قوی نہ ہواور ایسے ماحول میں پڑھانے سے کسی فتنہ اورگناہ میں مبتلاہونے کااندیشہ ہوتواس کے لئے ایسے مخلوط ماحول میں پڑھاناجائز نہ ہوگا۔ درج بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے اگرکوئی مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھے یاپڑھائے تواس کی اجازت ہے اور اس کی امامت پر بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔لیکن اگر امام تقوی پر قائم نہ رہ سکے اور خود فتنے میں مبتلا ہو تو مقتدیوں کا اعتراض بھی درست ہوگا اور امام صاحب کو اس سے احتراز بھی لازم ہوگا۔
حوالہ جات
قال اللہ سبحانہ و تعالی: قل للمؤمنین یغضوامن أبصارہم ویحفظوافروجہم ذالک أزکی لہم ان اللہ خبیربمایصنعون ". (سورۃ النور" آیت 30)
وروی الامام الترمذی رحمہ اللہ:عن ابن عمر قال :خطبنا عمر بالجابية فقال يا أيها الناس إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه و سلم فينا فقال أوصيكم بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم … ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد من أراد بحبوحة الجنة فيلزم الجماعة من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن. قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه وقد رواه ابن المبارك عن محمد بن سوقة وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم صحيح . ( سنن الترمذي 4 / 465)
قال العلامة الحصکفي رحمه اللّٰه تعالیٰ:الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء أو بحائل، والخلوة بالمحرم مباحة إلا الأخت رضاعا، والصهرة الشابة وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين:6/369)
و قال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰه تعالیٰ:قوله :(زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم، اهـ .فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح ومر الكلام فيه فراجعه. (رد المحتار علی الدر المختار: 6/ 369)
محمد عثمان یوسف
دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی
22ربیع الاول 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عثمان یوسف | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |