021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شادی سے پہلے میسج یا کال پر بات کرنا
70512جائز و ناجائزامور کا بیانعورت کو دیکھنے ، چھونے اورجماع کرنے کے احکام

سوال

اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں اور ماں باپ کے ڈر کی وجہ سے نہیں بتاسکتے تو کیا ان کا شادی سے پہلے میسج یا کال پر بات کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا میسج کال پر بات کرنا جائز نہیں، اس سے بچنا لازم ہے۔ شرعی طور پر نا جائز اور گناہ کا کام ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج بھی اچھے نہیں ہوتے، نیز یہ حیا کے بھی خلاف ہے۔ اگر کسی کو کوئی رشتہ پسند ہو تو اسے چاہیے کہ والدین کے سامنے اس کا اظہار کرے اور وہاں رشتے کا پیغام بھیجے، نکاح کے لیے والدین سے بات کرنے اور رشتے کا پیغام بھیجنا ناجائز یا خلافِ حیا نہیں ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کی بات سنجیدگی سے سنا کریں اور ان کے لیے اچھے اور مناسب رشتوں کی تلاش کیا کریں؛ تاکہ وہ ناجائز کاموں میں پڑنے سے بچ سکیں۔

حوالہ جات
الدر المختار (6/ 369):

 وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا.  انتهى.

رد المحتار (6/ 369):

قوله ( وإلا لا ) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها ولا يرد السلام بلسانه.  قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة لأجنبية على رجل، إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه.  وكذا في الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اه. وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اه.  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

22/ربیع الاول/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب