021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کے برے چال چلن اور نفقہ نہ دینے پر عدالت سے خلع لینے کا حکم
70552طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

ترتیب و خلاصہ سوال: میری شادی شرجیل احمد نامی آدمی سے 2014ء میں ہوئی اور 2016ء کو میں واپس اپنے ماں باپ کے گھر آ گئی۔ میں نے عدالت سے خلع لی ۔ خلع کے کیس کی وجوہات یہ ہیں:

1.     شرجیل دماغی طور پر نارمل نہیں تھا اور مجھے ذہنی اذیت دیتا تھا۔

2.     اس کی آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ ایک وین ڈرائیور تھا لیکن اس کی گاڑی کی حالت خراب تھی۔ اس نے مجھ سے ایک سال نوکری کروائی۔ گھر کا کرایہ بھی میں دیتی تھی۔

3.     وہ گھر میں ہر وقت برہنہ (ننگا) اور ناپاک رہتا تھا۔ اسی حالت میں کھانا بھی کھاتا تھا اور سوتا بھی تھا۔ اپنے ہاتھ سے اپنی جسمانی خواہش پوری کرتا تھا۔ حتی کہ قضائے حاجت کے بعد استنجا بھی نہیں کرتا تھا۔

4.     رات دیر تک باہر رہتا اور اپنے دوستوں کو گھر لاتا تھا جو الگ کمرے میں کمپیوٹر پر گندی فلمیں دیکھتے تھے۔

5.     مجھ سے پیسے منگواتا تھا اور یہاں تک کہتا تھا کہ اگر پیسے نہیں لائی تو تجھے کسی کے آگے بیچنا پڑا تو بیچ دوں گا۔

میں ڈر گئی اور گھر آ گئی اور گھر والوں کو سب باتیں بتا دیں جس پر وہ دھمکی دینے آیا اور بولا: "ایک بار تو گھر آ جا پھر تجھے بتاتا ہوں کہ شوہر کیا ہوتا ہے۔" اس کے بعد میں نہیں گئی اور عدالت سے خلع کے لیے رجوع کیا۔ عدالت کی جانب سے اس کو نوٹس بھی دیے گئے مگر وہ عدالت کے بلوانے پر بھی نہیں آیا۔ اپنا گھر بھی چھوڑ چکا ہے اور معلوم نہیں کہ کہاں ہے۔ عدالت نے یہ سب دیکھتے ہوئے مجھے خلع دی اور اس کے پیپرز بھی مجھے دیے ہیں۔

تنقیح: سائلہ کے والد نے بذریعہ فون  مذکورہ بالا پیسے منگوانے اور آمدنی کے نہ ہونے سے متعلق وضاحت طلب کرنے پر بتایا کہ وہ خود ماہانہ خرچہ بیٹی کے گھر دے کر آتے تھے اور شوہر خرچہ نہیں دیتا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع کا معاملہ ایسا ہے کہ اس میں زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو خلع واقع نہیں ہوتی۔ دوسری جانب جب شوہر بیوی کو نان و نفقہ نہ دے رہا ہو، اس پر ظلم و تشدد کر رہا ہو یا جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہو اور خلع دینے پر راضی بھی نہ ہو تو بعض مخصوص صورتوں میں بیوی عدالت کے ذریعے شوہر سے جدائی حاصل کر سکتی ہے۔ یہ صورتیں کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔

عدالت کے ذریعے فسخ نکاح کے لیے ضروری ہے کہ بیوی گواہوں کے ذریعے عدالت میں شوہر کا جرم ثابت کرے ،  اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو قاضی (جج) شوہر سے قسم لے کہ اس نے یہ جرم نہیں کیا۔ اگر شوہر قسم اٹھا لیتا ہے تو اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا  اور اگر بیوی گواہ پیش کر دیتی ہے یا  شوہر قسم نہیں اٹھاتا تو قاضی اولاً اسے طلاق دینے پر مجبور کرے گا۔ اگر شوہر طلاق نہیں دیتا تو قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا۔ اسی طرح اگر شوہر عدالت کے سمن بھیجنے کے باوجود عدالت میں حاضر نہیں ہوتا تو بھی قاضی (جج) دونوں کے درمیان تفریق کر سکتا ہے۔

مذکورہ بالا تمہید کے بعد سوال میں مذکور صورت کا حکم یہ ہے کہ (بقول مدعیہ) چونکہ شوہر  بیوی کو نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور اس نے آئندہ دینے کا التزام بھی نہیں کیا  (وہ عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضر ہی نہیں ہوا)  لہذا عدالت نے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اس بنا پر بھی دونوں کے درمیان نکاح ختم کیا  ہے۔ اگر بیوی نے شوہر کے نفقہ نہ دینے اور ضد و ہٹ دھرمی کو گواہوں یا ایسے مضبوط قرائن  سے عدالت میں ثابت کیا تھا جن کی بنا پر عدالت کو اس کے دعوے کی صداقت پر اطمینان ہو،  تو ایسی صورت میں عدالت کی جانب سے جاری کی گئی خلع کی ڈگری  نفقہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے فسخ نکاح کے طور پر معتبر ہے اور میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں ہے۔ عدت گزرنے کے بعد عورت کہیں اور شادی کر سکتی ہے۔

مذکورہ بالا صورت حال ایک فریق کی بیان کردہ ہے اور اسی کے مطابق جواب دیا جا رہا ہے۔ اگر واقعی صورت حال اس سے مختلف ہو تو یہ جواب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
(فإذا منعها، ولم تجد ما تأخذه، واختارت فراقه، فرق الحاكم بينهما) وجملته أن الرجل إذا منع امرأته النفقة، لعسرته، وعدم ما ينفقه، فالمرأة مخيرة بين الصبر عليه، وبين فراقه. وروي نحو ذلك عن عمر، وعلي، وأبي هريرة. وبه قال سعيد بن المسيب، والحسن، وعمر بن عبد العزيز، وربيعة، وحماد، ومالك، ويحيى القطان، وعبد الرحمن بن مهدي، والشافعي، وإسحاق، وأبو عبيد، وأبو ثور.
(المغنی، 8/204، ط: مکتبۃ القاھرۃ)
 
"(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."                                                                                                                
(المبسوط للسرخسی،6/173، ط: دار المعرفة)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 24/ ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب