021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فلیٹ بنانےسے پہلے فروخت کرنے کا حکم
70547خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

      کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فلیٹ بنانے سے پہلے اس کو بیچنا جائز ہے یا نہیں؟آجکل ہوتا یہ ہے کہ صرف پلاٹ ہوتا ہے اور اس پر کچھ بھی نہیں بنا ہوتا،بعد میں بننے والے فلیٹ کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ایڈوانس میں پیسے دیکر بکنگ کی جاتی ہے،باقی پیسے قسطوں میں دیئے جاتے ہیں،جبکہ فلیٹ ابھی بنا نہیں ہوتا۔تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو کس وجہ سے؟بیع کی وجہ سے یا وعدہ بیع کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

      پلاٹ کے مالک کو رقم دے کر اپنے لیے فلیٹ بنوانے کے معاملے کو فقہ کی اصطلاح میں استصناع کہا جاتاہے،جس میں رقم دے کر بکنگ کروانے والے کو مستصنع اور فلیٹ بنانے والے کو صانع کہا جاتا ہے۔یہ معاملہ فقہاء کرام کے ہاں جائز ہے بشرطیکہ معاملہ کرتے وقت تمام اوصاف بیان کردیے جائیں ، مثلًا کمروں کی تعداد کیا ہوگی، مٹیریل کیسا ہوگا، منزل کونسی ہوگی، اور محل ِ وقوع کیا ہوگاوغیرہ تاکہ بعد میں کوئی نزاع اور جھگڑا  نہ ہو۔اس معاملہ میں یکمشت رقم ادا کرنا یا ایڈاوانس میں پیسے دے کر بکنگ کرواکے باقی پیسے قسطوں میں ادا کرنا دونوں صورتیں جائز ہیں۔

واضح رہے کہ فلیٹ کی بکنگ کرنے والا جب تک فلیٹ بننے کے بعد اس پر قبضہ نہ کرلے وہ اس فلیٹ کو آگے کسی اور کو فروخت نہیں کرسکتا،کیونکہ جب تک وہ فلیٹ بن کر اس کے قبضہ میں نہ آئے اس وقت تک وہ اس کی ملکیت میں نہیں آتا اور غیر مملوک کی خرید و فروخت شرعا جائز نہیں۔

حوالہ جات
      (الفتاوى الهندية ،4 / 517)
      " يجوز الاستصناع استحسانا لتعامل الناس ،وتعارفهم في سائر الأعصار من غير نكير. كذا في محيط السرخسي."
     (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق ،4/ 123)
     قال - رحمه الله - (وصح السلم والاستصناع في نحو خف وطست وقمقم) ...وأما الاستصناع فللإجماع الثابت بالتعامل من لدن النبي - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا، وهو من أقوى الحجج،وقد استصنع النبي - صلى الله عليه وسلم - خاتما ومنبرا، وقال - عليه الصلاة والسلام -: "ما رآه المؤمنون حسنا فهو عند الله حسن" وهذا استحسان ،والقياس أن لا يجوز؛ لأنه بيع المعدوم، وهو منهي عنه، ولكن ترك العمل به بما ذكرنا، والقياس يترك بمثله."
      (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام ،1 / 424)
       "(المادة 391) : لا يلزم في الاستصناع دفع الثمن حالا أي وقت العقد. أي لا يلزم فيه تعجيل الدفع وقد بين في المادة (387): أن تعجيل دفع الثمن شرط في السلم لا في الاستصناع. وعلى كل فكما يكون الاستصناع صحيحا بالتعجيل يكون صحيحا بتأجيل بعض الثمن، أو كله، ويجوز أن يكون الأجل فيه لشهر، أو أكثر، أو أقل ولا يقاس على السلم."
       (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،5/ 146)
       (ومنها) أن يكون مملوكا. لأن البيع تمليك فلا ينعقد فيما ليس بمملوك."
        (فقہ البیوع،1/604،مکتبۃ معارف القرآن)
        "والصورۃ الثانیۃ:أن تکون الأرض ملکا للصانع،ویطلب منہ المستصنعُ أن یبنی علیھا بیتا أو مکتبا أو دکّانا. ومنہ:ما جری بہ العمل من أن صاحب الأرض الخالیۃ یعمل خِطّۃ لبناء کبیر  یحتوی  علی شُقق سَکنیّۃ،أو مکاتب أو محلّات،ثم یدعو الناسَ  للاکتتاب،فیدعون إلیہ مبالغ،ثمّ یُسلّم إلیھم الشقق بعد اکتمالھا،فھو مخرّج علی الاستصناع،فالمکتتبون یعقدون مع صاحب الأرض استصناع َ الشّقۃ أو المکتب أومحل تجاري بمواصفات معلومۃ حسب التّصمیم،فیجوز ذلک بشروط الاستصناع.ولکنّ ما یفعلہ بعض الناس من بیع الشّقّۃ أو المکتب  قبل اکتمال بنائہ وقبل أن یقع التّسلیم فإنہ لا یجوز لما ذکرنا من أنّ المصنوع لیس ملکا للمُستصنع قبل التسلیم،فہو بیع لما لا یملکہ الإنسان،وھوممنوع بنصّ الحدیث."

   واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

             ابرار احمد

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

     23/ربیع الأول،1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب