021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائی کےانتقال کےبعد بہن کا اُس پر قرض کادعوی کرکےوصولی کا مطالبہ کرنےکا حکم
70521میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارےوالد بزرگوارنےترکہ میں ایک مکان اورزمین چھوڑی ہے۔ہم دوبھائی اور چھ بہنیں ہیں۔والد صاحب کےانتقال کےبعدایک بھائی کا بھی انتقال ہوگیاہے۔والدہ کا انتقال والد صاحب کی وفات سےپہلے ہی ہوچکا تھا۔اب بھائی کےحصےکی تقسیم کےبارے میں دریافت کرناہے۔بھائی نےبرطانیہ میں ایک غیر مسلم خاتون سےشادی کی تھی جس سےایک بیٹی بھی پیداہوئی تھی اور وہ بھی ماں ہی کےمذہب پر ہے۔برطانیہ کےقانون کےمطابق بھائی کی جوبھی جائیداد تھی وہ بھائی کی بیوی اور بیٹی کو مل گئی ہے۔

پاکستان میں والد صاحب کی جو جائیداد ہے،اس میں بھائی کےحصے کی تقسیم کس طرح ہوگی؟مرحوم بھائی کےرشتہ داروں میں ایک بھائی،چھ بہنیں،ایک غیر مسلم بیوی ،ایک غیر مسلم بیٹی،ایک چچا اور ایک خالہ ہیں۔اس کےعلاوہ ہمارے بھائی نےکوئی وصیت نہیں کی تھی او رنہ ہی ہمارے علم میں ان پر کوئی قرضہ ہے۔البتہ ایک بہن کےکہنےکےمطابق انہوں نےمرحوم بھائی کو الٹراساؤنڈ مشین خریدنےکےلئےپندرہ ہزار برطانوی پاؤنڈز دیئے تھےاور اُنکےپاس ایک سادہ صفحہ پریہ لکھا ہوا بھی ہے اور بینک کے ذریعےرقم کی ادائیگی کی رسیدبھی ہے۔لیکن اس سارے لین دین کاکسی اور کوکچھ علم نہ تھا۔اب بہن اپنی اُس رقم کا مطالبہ کررہی ہیں۔شریعت کےمطابق بھائی کےحصےکی تقسیم کس طرح ہوگی؟

وضاحت:سائل سےفون پرمعلوم ہوا ہےکہ بہن نےمرحوم بھائی کو جوپندرہ ہزار برطانوری پاؤنڈزدیئے تھے،وہ قرض کی نیت سےنہیں تھے،بلکہ بہن پاکستان میں تھی اور بہن کو ایک الٹرا ساؤنڈ مشین برطانیہ سےخریدنی تھی جس کےلئے بہن نےبھائی کو ہنڈی کےذریعے سےبرطانیہ میں رقم بھجوائی تھی اور سائل نےاپنی بہن سےہنڈی کی رسید بھی لےکر بندہ کو واٹس ایپ کےذریعےکینیڈا سےبھیج دی ہے۔بہن نےبھائی کو رقم بھجواتے وقت یہ کہا تھا کہ تم یہ رقم اپنےپاس رکھ لو اور میں کچھ عرصے میں برطانیہ آکر مشین خرید لونگی،لیکن اُس بہن کےبرطانیہ جانےسےقبل ہی بھائی کاانتقال ہوگیا اور بھائی کی برطانیہ میں جتنی بھی جائیداد تھی وہ وہاں کےقانون کےمطابق بھائی کی غیر مسلم بیوی اور بیٹی میں تقسیم کردی گئی ہے۔

بھائی کےانتقال کےبعد بہن نےجب مرحوم بھائی کی بیوی سےرابطہ کیا تو اُس نےکہا کہ مجھےرقم کا کچھ علم نہیں ہےاور میرے خاوند کی جو بھی رقم اور پراپرٹی تھی وہ برطانیہ کے قانون کے مطابق میری اور میری بچی کا حق ہے اور اُس نے بہن کی رقم دینےسے صاف انکار کر دیا۔اب بہن کا دعوی ہےکہ والدصاحب کےترکےسےمرحوم بھائی کا جو بھی حق ہے،اُس سے میری وہ رقم ادا کی جائے جو میں نےبھائی کو بطور امانت بھجوائی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  اگر بہن کا بیان سچ پر مبنی ہےاوراُنہوں نےواقعتاً ہنڈی کےذریعے سےاپنے بھائی کو برطانیہ رقم بھجوائی تھی تو وہ رقم   بھائی کےانتقال کےبعد اُن کےذمہ بہن کا قرض ہےجس کی ادائیگی مرحوم کےترکہ سےکی جائےگی۔مرحوم نے برطانیہ میں جوترکہ چھوڑا ہےاگر اُس سےبہن کےقرض کی ادائیگی کسی صوررت میں بھی ممکن نہیں ہے تو والد مرحوم کےترکہ میں سےمرحوم بھائی کا جتنا حصہ بنےگا،اُس میں سےپہلے بہن کا قرض ادا کیا جائےگا ۔پھرقرض کی ادائیگی کےبعد اگر کچھ بچ جائے تو وہ  تمام ورثہ میں اُن کےشرعی حصص کےمطابق تقسیم ہوگاجس میں یہ مقروض بہن بھی شامل ہوگی۔

نیزوالد مرحوم کےترکہ کی تقسیم کا طریقہ کاریہ ہےکہ مرحوم نےبوقت انتقال اپنی ملکیت میں جوکچھ منقولہ وغیرمنقولہ چھوٹابڑاسازوسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو،یہ سب میت کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلےمرحوم کےکفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطوراحسان ادا کردیئے ہوں تو پھریہ اخراجات نکالنےکی ضرورت نہیں۔اس کے بعد مرحوم کا وہ قرض ادا کیا جائےجس کی ادائیگی مرحوم کے ذمہ واجب ہو۔اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو  ترکہ باقی بچے، اس کو کل10حصوں میں تقسیم کرکےہربیٹےکو2حصےیعنی ہربیٹےکوکل مال کا20فیصد اور ہربیٹی کو 1حصہ یعنی ہر بیٹی کو کل مال کا10فیصد حصہ ملے گا۔

حوالہ جات

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

  سید قطب الدین حیدر

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید قطب الدین حیدر بن سید امین الدین پاشا

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب