021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کو پہلی صف میں کھڑا کرنا
70597نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صفِ اوّل میں 10 افراد کی گنجائش ہے۔ قیامِ جماعت کے وقت 4 مرد اور 10 بچے ہیں۔ کیا بچوں کو پہلی صف میں کھڑا کیا جائے یا پچھلی صف میں؟ پچھلی صف میں کھڑا کرنے کی صورت میں بعد میں آنے والے لوگ پیچھے ہی کھڑے ہوں گے یا بچوں کے آگے سے گزر کر پہلی صف مکمل کریں گے؟ شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔ جَزَاکم اللہ خیرًا.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آج کل چھوٹے بچوں کی الگ صف بنائی جائے تواکثر وہ شرارتیں کرتے ہیں۔ جس سے ان کی بھی نماز خراب ہوتی ہےاور بڑوں کی بھی، لہٰذا نماز باجماعت میں بچوں کے شریک ہونے کی صورت میں انہیں بڑوں کے سا تھ ہی کھڑا کرنا چاہیے، البتہ اگر بچے سنجیدہ طبیعت کے ہوں اور ان سے شرارت کا خطرہ نہ ہو تو انہیں پیچھے الگ صف میں کھڑا کرنا مستحب ہے۔ اس صورت میں چونکہ نمازیوں کے آگے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں، لہٰذا بعد میں آنے والے لوگ پہلے صفِ اوّل مکمل کریں گے۔ اگر امام کے سامنے دیوار یا سترہ کے قائم مقام کوئی چیز نہ ہو تو سترہ رکھ دیں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل الصف. (ثم الخناثي، ثم النساء) قالوا: الصفوف الممكنة اثنا عشر، لكن لا يلزم.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله (اثنا عشر)؛ لأن المقتدي إما ذكر، أو أنثى، أو خنثى، وعلى كل فإما بالغ، أو لا، وعلى كل فإما حر، أو لا.
فيقدم الأحرار البالغون، ثم صبيانهم، ثم العبيد البالغون، ثم صبيانهم، ثم الأحرار الخناثي الكبار، ثم صغارهم، ثم الأرقاء الخناثي الكبار، ثم صغارهم، ثم الحرائر الكبار، ثم صغارهن، ثم الإماء الكبار، ثم صغارهن.
(رد المحتار علی الدر المختار: 1/571)
وقال الشیخ عبدالقادر الرافعی رحمہ اللہ تعالٰی: قال الرحمتي رحمہ اللہ: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال؛ لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان، فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض، وربما تعدی ضررھم إلی إفساد صلاۃ الرجال.
(تقریرات الرافعي علی الدر المختار: 73/100)
وقال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قام في آخر الصف في المسجد، بينه وبين الصفوف مواضع خالية، فللداخل أن يمر بين يديه؛ ليصل الصفوف؛ لأنه أسقط حرمة نفسه، فلا يأثم المار بين يديه، دل عليه ما ذكر في الفردوس برواية ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي  صلی اللہ علیہ وسلّم أنه قال: ((من نظر إلى فرجة في صف فليسدها بنفسه، فإن لم يفعل فمر مار فليتخط على رقبته؛ فإنه لا حرمة لهٗ)) أي: فليتخط المار على رقبة من لم يسد الفرجة. اهـ.
قلت: وليس المراد بالتخطي الوطء على رقبته؛ لأنه قد يؤدي إلى قتله، ولا يجوز، بل المراد أن يخطو من فوق رقبته، وإذا كان له ذلك فله أن يمر من بين يديه بالأولى، فافهم.
(رد المحتار: 1/636)
وقال العلامۃ علي بن أبي بكر الفرغانی رحمہ اللہ تعالٰی: وسترة الإمام سترة للقوم؛ لأنه صلی اللہ علیہ وسلّم صلى ببطحاء مكة إلى عنزة، ولم يكن للقوم سترة.
(الھدایۃ: 1/63)
وقال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة، وظاهر التعميم شمول المسبوق، وبه صرح القهستاني، وظاهره الاكتفاء بها ولو بعد فراغ إمامه.
(ردالمحتار: 1/638)
وقال ابن نجیم رحمہ اللہ تعالٰی: الحادي عشرـ أن سترة الإمام تجزئ عن أصحابه كما هو ظاهر الأحاديث الثابتة في الصحيحين من الاقتصار على سترته صلی اللہ علیہ وسلّم ، وقد اختلف العلماء في أن سترة الإمام هل هي بنفسها سترة للقوم، وله، أو هي سترة له خاصة، وهو سترة لمن خلفه؟ فظاهر كلام أئمتنا الأول.
(البحرالرائق: 2/19)

محمد عبداللہ

28/ ربیع الاول 1442ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب