021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق کے بعد غیر مقلدین سے فتوی لینے کاحکم
70610طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

جناب  مفتی صاحب 21 جولائی 2020 کو باہمی  رضامندی  وکیل کی  نگرانی  میں  طلاق نامہ تیار ہوا جس میں  تین طلاق تحریر ہے ،سابقہ  شوہر نے  طلاق  کے کاغذات   پڑھ  کر اس پر دستخط کئے ،پھر میں   نے  دستخط کئے ،دوسرے دن گواہان نے دستخط  کئے،وکیل نے طلاق  ہونےکی تصدیق کی ،پھر خاندان کے لوگوں  نے طلاق نامہ کے کاغذات  دیکھ کر   طلاق  واقع  ہونے کی تصدیق کی ۔اس کے بعد کاغذات  یونین  کونسل  میں جمع کردئیے گئے ، تین ماہ کے بعد  NA DRAیونین  کونسل نےطلاق واقع   ہونے  کا سر ٹیفکیٹ  جاری کردیا۔

سابقہ شوہر نے   ہوش حواس  کی درستگی  کی حالت میں  طلاق نامہ پر دستخط کئے ،مجھ  سے  بچوں کے حوالگی  اور  خرچہ کے بارے میں بات چیت کی ، خرچہ کاغذ پر لکھ کر    دستخط کردئے ۔

عدت ختم ہونے سے کچھ دن پہلے سابقہ  شوہر اہل حدیث مسجد سے  فتوی لائے کہ طلاق نہیں  ہوئی ،سارے کاغذات  گواہوں کے دستخط شناختی کارڈ  نادرہ  سرٹیفکیٹ   وغیرہ  سوال کے  ساتھ منسلک  کردیا ہے۔مہربانی  فرماکر بتائیے  طلاق  ہوئی  ہے یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

           سوال  میں  ذکرکردہ  تفصیل  کے مطابق شوہر   نےطلاق نامہ  میں  اپنی بیوی  ارم ناز کو﴿ڈائی ورس﴾طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ، طلاق  دیتا  ہوں ، کے الفاظ تین  دفعہ لکھوایا ہےپھر اس پر دستخط بھی کیا ہے،اس تحریر کے مطابق   جس دن شوہر نے یہ اسٹامپ  لکھوایا ہے اسی وقت    سے ہی مذکورہ خاتوں پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں  اور دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے ﴿بغیر حلا لہٴ شرعیہ کے دوبارہ  آپس میں نکاح  نہیں ہوسکتاہے،﴾

اور حلالہ  شرعیہ کی صورت یہ ہے ﴿  عدت پوری ہونے کےبعد عورت کاکسی  دوسری  جگہ شادی  ہوجائے پھر اس کے بعد شوہر  کے ساتھ  ہمبستری ہوجائے، اس کے بعد  شوہر  اس کو طلاق  دیدے یا اس کا انتقال  ہوجائے پھردوسرے شوہر  کی طرف سے طلاق  یا وفات کی عدت  گذار کر  آپس کی رضامندی  سےپہلے  شوہر سے   نکاح ہو﴾

اب شوہر کے لئے جائز نہیں  ہے کہ  ائمہ کی تقلید نہ کرنے والی کسی جماعت سے  فتوی  لیکر وقوع  طلاق سے انکار کرے،

کیونکہ  ان کا فتوی   قرآن  وسنت کی تصریحات  کے  خلا ف  ہونے کی  وجہ  سے  قابل عمل نہیں ہے۔

حوالہ جات
 الفتاوى الهندية (8/ 125)
رجل قال لامرأته أنت طالق أنت طالق أنت طالق فقال عنيت  بالأولى الطلاق وبالثانية والثالثة إفهامها صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا كذا في فتاوى قاضي خان
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } [البقرة: 230]
صحيح البخاري ـ م م (7/ 0)
وقال الليث حدثني نافع قال كان ابن عمر إذا سئل عمن طلق ثلاثا قال لو طلقت مرة أو مرتين فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك
ٰجب حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے  ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا  جاتا  کہ  جس نے اپنی بیوی  کو  تین طلاقین دیں   ہوں   تو فرماتے  کہ کاش    وہ ایک یا دوطلاقیں    دیتا  ،اس لئے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسا کرنے کاحکم   دیاتھا  ، ، لہذا اگر اس نے تین   طلاقیں دیں   تو   اس  کی بیوی  اس پر حرام ہوجائے گی  ، یہاں تک وہ اس کے   علاوہ  کسی سے  نکاح  کرلے۔ یعنی  حلالہ  شرعیہ کے بعد ۔
        سنن أبي داود (2/ 242)
 حدثنا أحمد بن عمروبن السرح ، ثنا ابن وهب ، عن عياض بن عبد الله الفهرى وغيره ، عن ابن شهاب ، عن سهل بن سعد ، في هذا الخبر ، قال : فطلقها ثلاث تطليقات عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأنفذه رسول الله صلى الله عليه وسلم ،
حضرت   عویمر رضی اللہ  عنہ   نے اپنی بیوی  کو آنحضرت   صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے تین طلاقیں دیدیں  تو آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے  تینوں  کو  نافذ  فرمایا ۔
المصنف-ابن أبي شيبة (1/ 16)
: سئل عمران بن حصين عن رجل طلق امرأته ثلاثا في مجلس قال : أثم بربه وحرمت عليه امرأته
حضرت عمران بن  حصین رضی اللہ عنہ سے  ایسے شخص کے بارے  میں  سوال کیاگیا  کہ جس نے  ایک ہی  مجلس میں  اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں ، تو انہوں نے فرمایا  کہ اس  نے اپنے رب  کی نافرمانی کی  اور اس کی بیوی  اس پر حرام  ہوگئی ۔

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

یکم  ربیع الثانی ١۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب