021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداد کی تقسیم کی وصیت کا شرعی حکم
70666میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  ہمارے والد صاحب نے جائیداد کی تقسیم کی وصیت لکھی ہے ۔ہر ایک بھائی اور بہن کا حصہ لکھا ہے۔اس وقت ایک بھائی اور ایک بہن موجود تھے۔جنہیں  زیادہ نوازا گیا ہے۔پھر وہ وصیت سب میں تقسیم کی گئی۔اس میں والدصاحب نے لکھا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں ساری جائیداد میری ملکیت میں ہوگی۔میرے انتقال کے بعد مذکورہ تفصیل کے مطابق ہر ایک اپنا حصہ لے گا۔

کیا شرعا یہ وصیت معتبر ہے ؟ہماری رہنمائی فرمائیں۔وصیت نامہ سوال کے ساتھ لف ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں والد صاحب نے جائیداد کی تقسیم سے متعلق جو وصیت لکھی ہے اگر تمام ورثہ عاقل ،بالغ ہیں اور اس تقسیم پر راضی ہیں اور کسی وارث کو محروم نہیں کیا گیا ہے تو درست ہے۔لیکن اگر سب اس پر راضی نہ ہوں تو اس صورت میں ساری جائیداد شرعی اصولوں کے مطابق تمام ورثہ میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے۔

مذکورہ وصیت نامہ میں  بہو کے لیے کی گئی وصیت کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ رقم کل جائیداد کی ایک تہائی یا اس سے کم ہے تو وہ رقم وصیت کے مطابق  ان کو دی جائے۔اگر ایک تہائی سے زائد ہے تو جتنا حصہ زائد ہے اگر سب ورثہ اس پر راضی ہیں تو بھی اس  میں حرج نہیں اگر بعض راضی ہوں اور بعض نہیں تو جو راضی ہوں  ان کے حصے کی بقد روصیت نافذ ہوسکتی ہے۔ ورنہ یہ وصیت کل جائیداد کی صرف ایک تہائی میں نافذ کی جائے گی۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : (ولا لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية، ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته.
(الدر المختار للحصفكي :ج 7 / ص 235)
قال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ : قد بينا أن الوصية للوارث لا تجوز بدون إجازة الورثة لقوله عليه السلام : { لا وصية لوارث إلى أن يجيزه الورثة } ، فإن أوصى لبعض ورثته ولأجنبي جازت حصة الأجنبي وبطلت حصة الوارث.
المبسوط :ج 30 / ص 432)
 ( ولا لوارثه ) لقوله عليه الصلاة والسلام { إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه ألا لا وصية لوارث } ولأن بقية الورثة يتأذون بإيثاره بعضهم ففي تجويزه قطعية الرحم ( إلا بإجازة الورثة ) استثناء مما تقدم من عدم الصحة بما زاد على الثلث ، وعدم صحة الوصية لقاتله ووارثه يعني لا تصح الوصية بما زاد على الثلث ولا للقاتل ولا للوارث في حال من الأحوال إلا في حال التباسها بإجازة الورثة فتصح حينئذ ؛ لأن عدم الجواز كان لحقهم فتجوز بإجازتهم
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر :ج 9 / ص 169)
 

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۵/ربیع الثانی    ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب