021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لکھ کر تین طلاق دینا
70651طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

آج سے تقریباً ساڑھے تین سال قبل ایک روز میرے سسر صاحب میرے پاس آئے، باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگے: تم میری بیٹی کو چھوڑ دو۔اس وقت میری بیوی میرے گھر تھی۔اس طرح غالباً دو یا تین بار ہوا۔میں نے اسے کہا آپ کی بیٹی کو کس چیز کی کمی ہے؟ اس نے کہا تمھارے ،ہمارے رواج متضاد ہیں۔میں نے کہا آپ کو یہ بات پہلے سوچنی تھی۔شادی کو تقریباً تین سال ہوگئے تھے میری ایک بیٹی بھی تھی تین چار ماہ کی، میں نے کہا میں نہیں چھوڑتا، آپ سے جو ہوتا ہے کرو۔ اس طرح ایک ڈیڑھ ماہ بات خاموش ہوگئی ۔پھر ایک دن میری بیوی نے کہا میں امی ابو کے گھر جاتی ہوں، میں نے کہا جاؤ ۔جب وہ گئی تو انھوں نے واپس نہیں آنے دیا۔ پھر انھوں نے جھوٹے کیس کرنا شروع کر دیے ۔تقریبا دو تین کیس کیے ہر کیس کے فیصلے کے وقت اس کا مطالبہ میری بیٹی کو چھوڑ دو یا میرے گھر کے قریب کرایہ کے مکان پہ شفٹ ہوجاؤ۔آخر کار میں نے اس کو کہا میں چھوڑتا نہیں،میں کرایہ کے مکان میں شفٹ ہوتا ہوں۔پھرمیں کرایہ کے مکان میں شفٹ ہوگیا۔شفٹ ہونے کے بعد دو ماہ سکون سے گزرے ،پھر وہی پرانی باتیں۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کیا تم مجھ سے تنگ ہو؟ اس نے کہا تم نے مجھے چھوڑ نا نہیں اور کچھ نہیں کہتی اس طرح خاموش ہوگئی ۔کچھ دن گزرنے کے بعد پھر وہی مسئلہ میری بیوی کو اپنے پاس رکھ کر کہتے ہیں یہ کام کر رہے ہو تو ٹھیک، ورنہ ہماری بیٹی کو چھوڑ دو ۔کرایہ کے مکان میں اکیلا ٹھہر رہا تھا، اپنے والدین کو تو میں پہلے چھوڑ آیا تھا ،میرا ذہن نہیں کام کر رہا تھا کیا کروں ۔میں سوچتا تھا میری بیٹی کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔ایک دن صبح اٹھا نماز پڑھ کر ساس سسر دنوں کو کال کی،دونوں کال ریسیو نہیں کی ۔میں ہوٹل پر گیا ناشتہ لے کر کرایہ کے مکان میں واپس آیا، ناشتہ کیا ،پھر کال کی انہوں نے کال ریسیو نہیں کی۔میں نے کاغذ پنسل اٹھائی، اپنے دل میں الله تعالیٰ کو حاضر کر کے کہا: اے الله تعالیٰ میں یہ طلاق دل سے نہیں دے رہا، اگلے جہان مجھ سے اس کا بدلہ نہ لینا ۔یعنی پوچھ تاچھ نہ کرنا ، میری انکھوں میں آنسوآرہے تھے ،میں نے تین طلاقیں اکٹھی لکھ دی تھیں، پھر میں مکان سے نکلا باہر گلی میں سسر صاحب آ رہے تھے ،میں نے وہ پرچی اس کو دے دی،وہ پرچی لے کر چلا گیا اس وقت تک میں نے یہ سنا ہوا تھا کہ تین طلاقیں اکٹھی نہیں ہوتیں۔لیکن بعد میں، میں خاموش ہو گیا ۔نہ کوئی بندا میرا گواہ تھا اور نہ میرے پاس کوئی ثبوت ہے۔اب وہ میری بیٹی کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے۔میری بیوی مجھے کال اور میسجز کرتی ہے ،مجھے لے جاؤ،ورنہ ساری زندگی تمہیں بیٹی سے نہیں ملنے دیں گے۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی کریں؟نیزکیا میری بیوی واپس آ سکتی ہے یا نہیں ؟  آج سے تقریباً ساڑھے تین سال قبل ایک روز میرے سسر صاحب میرے پاس آئے، باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگے: تم میری بیٹی کو چھوڑ دو۔اس وقت میری بیوی میرے گھر تھی۔اس طرح غالباً دو یا تین بار ہوا۔میں نے اسے کہا آپ کی بیٹی کو کس چیز کی کمی ہے؟ اس نے کہا تمھارے ،ہمارے رواج متضاد ہیں۔میں نے کہا آپ کو یہ بات پہلے سوچنی تھی۔شادی کو تقریباً تین سال ہوگئے تھے میری ایک بیٹی بھی تھی تین چار ماہ کی، میں نے کہا میں نہیں چھوڑتا، آپ سے جو ہوتا ہے کرو۔ اس طرح ایک ڈیڑھ ماہ بات خاموش ہوگئی ۔پھر ایک دن میری بیوی نے کہا میں امی ابو کے گھر جاتی ہوں، میں نے کہا جاؤ ۔جب وہ گئی تو انھوں نے واپس نہیں آنے دیا۔ پھر انھوں نے جھوٹے کیس کرنا شروع کر دیے ۔تقریبا دو تین کیس کیے ہر کیس کے فیصلے کے وقت اس کا مطالبہ میری بیٹی کو چھوڑ دو یا میرے گھر کے قریب کرایہ کے مکان پہ شفٹ ہوجاؤ۔آخر کار میں نے اس کو کہا میں چھوڑتا نہیں،میں کرایہ کے مکان میں شفٹ ہوتا ہوں۔پھرمیں کرایہ کے مکان میں شفٹ ہوگیا۔شفٹ ہونے کے بعد دو ماہ سکون سے گزرے ،پھر وہی پرانی باتیں۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کیا تم مجھ سے تنگ ہو؟ اس نے کہا تم نے مجھے چھوڑ نا نہیں اور کچھ نہیں کہتی اس طرح خاموش ہوگئی ۔کچھ دن گزرنے کے بعد پھر وہی مسئلہ میری بیوی کو اپنے پاس رکھ کر کہتے ہیں یہ کام کر رہے ہو تو ٹھیک، ورنہ ہماری بیٹی کو چھوڑ دو ۔کرایہ کے مکان میں اکیلا ٹھہر رہا تھا، اپنے والدین کو تو میں پہلے چھوڑ آیا تھا ،میرا ذہن نہیں کام کر رہا تھا کیا کروں ۔میں سوچتا تھا میری بیٹی کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔ایک دن صبح اٹھا نماز پڑھ کر ساس سسر دنوں کو کال کی،دونوں کال ریسیو نہیں کی ۔میں ہوٹل پر گیا ناشتہ لے کر کرایہ کے مکان میں واپس آیا، ناشتہ کیا ،پھر کال کی انہوں نے کال ریسیو نہیں کی۔میں نے کاغذ پنسل اٹھائی، اپنے دل میں الله تعالیٰ کو حاضر کر کے کہا: اے الله تعالیٰ میں یہ طلاق دل سے نہیں دے رہا، اگلے جہان مجھ سے اس کا بدلہ نہ لینا ۔یعنی پوچھ تاچھ نہ کرنا ، میری انکھوں میں آنسوآرہے تھے ،میں نے تین طلاقیں اکٹھی لکھ دی تھیں، پھر میں مکان سے نکلا باہر گلی میں سسر صاحب آ رہے تھے ،میں نے وہ پرچی اس کو دے دی،وہ پرچی لے کر چلا گیا اس وقت تک میں نے یہ سنا ہوا تھا کہ تین طلاقیں اکٹھی نہیں ہوتیں۔لیکن بعد میں، میں خاموش ہو گیا ۔نہ کوئی بندا میرا گواہ تھا اور نہ میرے پاس کوئی ثبوت ہے۔اب وہ میری بیٹی کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے۔میری بیوی مجھے کال اور میسجز کرتی ہے ،مجھے لے جاؤ،ورنہ ساری زندگی تمہیں بیٹی سے نہیں ملنے دیں گے۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی کریں؟نیزکیا میری بیوی واپس آ سکتی ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ نے حالات سے تنگ آکر بادلِ نخواستہ  اپنی بیوی کوطلاق دینے کی ہی نیت سے ایک عام کاغذ پر تین طلاق لکھ کر کاغذ  اپنےسسر کے حوالے کیا ہے،اس سےآپ کی بیوی پرتین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ۔اب آپ اسے واپس نہیں بساسکتے۔قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:

"اگر شوہر (تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی۔ ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اورعورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں  کویقین ہو کہ اللہ تعالیٰ  کی طےکردہ حدودکو قائم رکھ سکیں گے ۔"(سورۃ البقرۃ:230)

اس قرآنی حکم کی روشنی میں آپ موجودہ صورت میں اپنی بیوی کو واپس نہیں لاسکتے ،الا یہ کہ وہ عدت گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرے ، اس دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلقات قائم کرےاور اس کے بعد وہ شوہر مر جائے یا کسی وجہ سے طلاق دےدے  تو اس کی عدت گزارنے کے بعد آپ کے باہم دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش ہوگی ،ورنہ نہیں۔

سوال میں دوسرا پہلو بچی کی کفالت وپرورش سے متعلق ہے۔اس کی تفصیل یہ ہےشریعت مطہرہ کی رو سے نوسال تک پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے،ہاں اگر ماں فوت ہوجائے یاوہ بچی کے کسی نا محرم سے شادی کرلے تواس کا یہ حق ساقط ہوجاتا ہے۔پھر بچی کی نانی کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے۔اگر وہ پرورش نہیں کرنا چاہتی یا نانی یا پرنانی زندہ نہیں ہےتو

 بچی کی دادی ،پردادی پھر خالہ وغیرہ کوحق پرورش حاصل ہوتا ہے جس کی تفصیل ضرورت پڑنے پر دریافت کی جاسکتی ہے۔نوسال کے بعد باپ شرعاً اپنی بیٹی کو اپنی پرورش میں لے سکتا ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ  اس تمام دورانیے میں بچی کے ہرقسم کے اخراجات اس کے والد کے ذمے ہیں ۔

سوال کا تیسرا پہلو،بچی سے آپ(بچی کے والد) کی ملاقات کا ہے۔اس سلسلے میں شرعاً بچی کی والدہ یا نانی والد سے ملنے سے نہیں روک سکتیں۔ایسے کرنے میں وہ شریعت کی رو سے ظالم اور گنہگار شمار ہوں گی۔آپ کو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک وتعالیٰ:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ  ﴿البقرۃ:٢٣٠
سنن أبي داود (حدیث:2208):
 "حدثنا سليمان بن داود العتكى حدثنا جرير بن حازم عن الزبير بن سعيد عن عبد الله بن على بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جده أنه طلق امرأته البتة فأتى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال"ما أردت ". قال واحدة. قال " آلله ". قال آلله. قال " هو على ما أردت ". قال أبو داود وهذا أصح من حديث ابن جريج أن ركانة طلق امرأته ثلاثا لأنهم أهل بيته وهم أعلم به وحديث ابن جريج رواه عن بعض بنى أبى رافع عن عكرمة عن ابن عباس."
شرح النووي على مسلم(10/70): دار إحياء التراث
 "وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث وقال طاوس وبعض أهل الظاهر لا يقع بذلك الا واحدة... إلخ"
رد المحتار(3/233):
(قوله: ثلاثة متفرقة) وكذا بكلمة واحدة بالأولى، وعن الإمامية: لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة..... وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
الفتاویٰ الہندیۃ (6 / 442):
"ثم الکتابۃ علیٰ ثلاثۃ أوجہٍ : مستبین مرسوم أي معنون وہو یجري مجری النطق في الحاضر والغائب علیٰ ما قالوا ، ومستبین غیر مرسوم کالکتابۃ علی الجدار وأوراق الأشجار ، وہو لیس بحجۃ إلا بالبینۃ والبیان ، وغیر مستبین کالکتابۃ علی الہواء والماء وہو بمنزلۃ کلام غیر مسموع ، فلا یثبت بہ الحکم ."
سنن أبي داود (حدیث:2276):
عن عبد الله بن عمرو: أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وثدي له سقاء، وحجري له حواء، وإن أباه طلقني، وأراد أن ينتزعه مني، فقال لها رسول الله  صلى الله عليه وسلم : "أنت أحق به ما لم تنكحي".
 البحر الرائق شرح كنز الدقائق(4/184):
(قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع)؛ لأنه إذا استغنى يحتاج إلى تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف وما ذكره المصنف من التقدير بسبع قول الخصاف اعتبارا للغالب؛ لأن الظاهر أن الصغير إذا بلغ السبع يهتدي بنفسه إلى الأكل والشرب واللبس والاستنجاء وحده فلا حاجة إلى الحضانة فلا مخالفة بين تقدير الاستغناء بالسن وبين أن يقدره على الأشياء الأربعة وحده كما هو المذكور في الأصل ولم يذكر الاستنجاء في المبسوط وذكره في السير الكبير وزاد في نوادر ابن رشيد ويتوضأ وحده ثم من المشايخ من قال المراد من الاستنجاء تمام الطهارة بأن يطهر وجهه وحده بلا معين ومنهم من قال بل من النجاسة وإن لم يقدر على تمام الطهارة وهو المفهوم من ظاهر كلام الخصاف.
وفي غاية البيان والتبيين والكافي أن الفتوى على قول الخصاف من التقدير بالسبع؛ لأن الأب مأمور بأن يأمره بالصلاة إذا بلغها وإنما يكون ذلك إذا كان الولد عنده ولو اختلفا فقال ابن سبع وقالت ابن ست لا يحلف القاضي أحدهما ولكن ينظر إن كان يأكل وحده ويلبس وحده ويستنجي وحده دفع وإلا فلا كذا في الظهيرية واستغنى بذكر الأكل عن الشرب ولذا ذكر الشرب في الخلاصة وجمع بين الأربعة في التبيين، وأما ما في فتح القدير والخلاصة من عدم ذكر الاستنجاء فسهو وأشار المصنف - رحمه الله - بذكر الأم والجدة إلى أن غيرهما أولى فلو قال والحاضنة أحق به حتى يستغني لكان أصرح.
المبسوط للسرخسي)5/222):
(قال:) ويجبر الرجل على نفقة أولاده الصغار لقوله عز وجل ﴿فإن أرضعن لكم فآتوهن أجورهن﴾ [الطلاق :6] والنفقة بعد الفطام بمنزلة مؤنة الرضاع قبل ذلك، ولأن الولد جزء من الأب فتكون نفقته عليه كنفقته على نفسه، ثم في ظاهر الرواية لا يشارك الأب في النفقة أحد.
 وقد روي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن النفقة على الأب والأم أثلاثا بحسب ميراثهما من الولد فأما في ظاهر الرواية، كما لا يشاركالأب في مؤنة الرضاع أحد، فكذلك في النفقة، وهذا إذا كان الأب موسرا ,فإن كان معسرا والأم موسرة أمرت بأن تنفق من مالها على الولد ويكون ذلك دينا على الأب إذا أيسر، وكذلك الأب إذا كان معسرا وله أخ موسر فإن الأخ وهو عم الولد يعطي نفقة الولد ويكون ذلك دينا على الأب له إذا أيسر؛ لأن استحقاق النفقة على الأب ولكن الإنفاق لا يحتمل التأخير فيقام مال الغير مقام ماله في أداء مقدار الحاجة منه على أن يكون ذلك دينا عليه إذا أيسر والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، وهذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج واستحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر بخلاف نفقة الزوجة، فإن استحقاق ذلك باعتبار العقد لتفريغها نفسها له فتستحق موسرة كانت، أو معسرة فأما الاستحقاق هنا باعتبار الحاجة فلا يثبت عند عدم الحاجة.

                                                                                                 5/ربیع الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب