021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک کیشیئر کا قربانی میں شریک ہونا
70650قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

میرے بھائی بینک میں کیشیئر ہیں۔ اب انھوں نے اجتماعی قربانی میں حصہ لینا ہے۔ اگر وہ اس میں حصہ لیتے ہیں تو کیا باقی حصہ داروں کی قربانی ہو جائے گی؟ اور کیا بھائی کی قربانی بھی ہو جائے گی؟ اور اگر نہیں تو اس کا کیا حل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سودی بنک میں کیشیئر کی نوکری ناجائز ہے، کیونکہ یہ نوکری سود کے لین دین میں معاونت کے زمرے میں آتی ہے۔ (تبویب: 284/217)

لہٰذا اگر آپ کے بھائی سودی بینک میں کیشیئر ہیں اور  ان کے پاس حلال آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی ہے، لیکن حلال آمدنی اس تنخواہ سے کم ہے اور وہ اس مخلوط مال سے یا صرف بینک کی تنخواہ سے شریک  ہوتے ہیں تو اس صورت میں نہ تو ان کی اپنی قربانی درست ہوگی اور نہ ہی اس جانور کے دیگر شرکاء کی۔

 اور اگر وہ خالص حلال مال سے قربانی کرتے ہیں یا  ان کی حلال آمدنی اس تنخواہ سے زیادہ ہے اور وہ اس مخلوط مال سے قربانی میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کی اور دیگر شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی اور یہی اس مسئلے کا حل ہے۔ نیز انہیں چاہیے کہ  جلد از جلد حلال روزگار تلاش کریں۔

حوالہ جات
قال الشیخ محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ تعالٰی: السابع:أن یؤجرالمرأنفسه للبنک بأن یقبل فیه وظیفة، فإن کانت الوظیفة تتضمن مباشرة العملیات الربویة،أوالعملیات المحرمةالأخری، فقبول ھذہ الوظیفة حرام، وذلک مثل التعاقد بالربوا أخذًا، أوعطاءً،أوخصم الکمبیالات،أوکتابة ھذہ العقود، أوالتوقیع علیھا،أوتقاضی الفوائد الربویة،أودفعها،أوقیدھا فی الحساب بقصد المحافظات علیھا،أوإدارةالبنک ،أوإدارةفرع من فروعه،فإن الإدارة مسئولة عن جمیع نشاطات البنک التی غالبھاحرام. ( فقہ البیوع: 1064/2)
وقال اللہ تعالٰی: ﴿ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان﴾ (المائدۃ: 2)
وعن جابر رضی اللہ عنہ، قال: لعن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه. (صحیح مسلم: 1219/3)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (وإن) (كان شريك الستة نصرانيا أو مريدا اللحم) (لم يجز عن واحد) منهم؛ لأن الإراقة لا تتجزأ، هداية،  لما مر.
و قال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: ( وإن كان شريك الستة نصرانيا إلخ): وكذا إذا كان عبدًا، أو مدبرا يريد الأضحية؛ لأن نيته باطلة؛ لأنه ليس من أهل هذه القربة، فكان نصيبه لحمًا، فمنع الجواز أصلًا، بدائع. (رد المحتار: 326/6)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: آكل الربا، وكاسب الحرام أهدى إليه، أو أضافه، وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه، أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالًا لا بأس بقبول هديته، والأكل منها، كذا في الملتقط. (الفتاوٰی الھندیۃ: 343/5)

محمد عبداللہ

22/ ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب