021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق معلق کا مسئلہ(متعدد بار طلاق کوشرط پر معلق کرنا)
11246طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

1ـ میرا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا۔ جس کی نوعیت یہ تھی کہ میں  نے اپنی بیوی سے کہا کہ آپ پھوپھا کے گھر نہ جایا کرو اور کہا:  "اگر اب اس گھر گئی تو میری طرف سے آپ کو ایک طلاقِ رجعی"۔پھر میں گھر سے چلا گیا۔ شام کو گھر آکر اس سے پوچھا کہ کیا آپ باہر ادھر گئی تھی؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں، میں باہر گئی تھی، مگر صرف گھر کے گیٹ پر کوڑا پھینکنے کے بعد آگئی تھی۔ مطلب یہ کہ وہ پھوپھا کے گھر نہیں گئی تھی۔ پھر اسی شام میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، اب آپ کو پھوپھا کے گھر جانے کی اجازت ہے یعنی طلاق کی شرط ختم۔ اس کے بعد وہ کئی دفعہ اس پھوپھا کے گھر گئی۔ کیا طلاق واقع ہوئی؟

2ـ پھر میں چلّے پر چلا گیا۔ اس دوران اس نے فون پر  اصرار کرنا شروع کر دیا کہ مجھے طلاق دو اور کہا کہ تم مجھے طلاق دو، ورنہ میں بچوں کو زہر دے دوں گی۔ چنانچہ میں نے اسے میسیج کیا کہ آپ کو میری طرف سے ایک طلاقِ رجعی۔ کیا طلاق واقع ہوئی؟

3ـ پھر میں نے چلے سے واپس آکر رجوع کر لیا۔ کچھ عرصے بعد پھر جھگڑا ہوا اور اس نے طلاق کا مطالبہ شروع کر دیا تو میں اسے سکون کی خاطر اس کے میکے چھوڑ آیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے خرچے کا مطالبہ کیا تو میں نے عذر ظاہر کیا کہ ابھی میرے پاس رقم نہیں، اپنے والد سے لے لو۔ اس نے پھر بچوں کو زہر دینے کی دھمکی دی تو میں نے کہا کہ خدارا ایسا مت کرو۔ پھر اس نے پانچ منٹ کا وقت دیا کہ قسم کھاؤ کہ اگر 15 اکتوبر کو میں نے 18 ہزار روپے نہ بھجوائے تو میری طرف سے طلاق۔ چنانچہ میں نےکہا کہ اگر میں نے آپ کو 15 اکتوبر کو 18 ہزار نہ بھجوائےتو آپ جو کہو گی میں عمل کروں گا۔ پھر اس کے مزید اصرار پر یہ کہا کہ اگر 15 اکتوبر کو پیسے نہ بھجوائے تو پھر سیدھا طلاق میری طرف سے۔پھر اس نے قسم کھانے پر زور دیا تو قسم کھا کر کہا کہ اگر 15 اکتوبر کو میں نے آپ کو 18 ہزار نہ بھجوائے تو پھر ہم آپس میں آزاد ان شاءاللہ۔ یہ  جملے کہتے وقت طلاق کی نیت نہیں تھی، بلکہ اس کو رام کرنے کے لیے کہا تھا اور نیت یہ تھی کہ آپ ٹینشن سے آزاد ہو۔ پھر 15 اکتوبر کو میں نے پیسے نہیں بھجوائے۔ کیا طلاق واقع ہوئی؟

یہ سب باتیں موبائل پر میسیج کے ذریعے ہوئی تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1ـ صورتِ مذکورہ میں جب عورت پھوپھا کے گھر گئی تو اس سے پہلی طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، کیونکہ ایک بار طلاق کی شرط لگانے کے بعد آپ کو شرط ختم کرنے کا اختیار نہیں رہا۔ پھر جب آپ نے اس سے قولًا یا عملًا رجوع کیا تو رجوع ہوگیا۔

2ـ اور جب آپ نے میسیج میں یہ لکھا کہ آپ کو میری طرف سے ایک طلاقِ رجعی، تو اس سے دوسری طلاقِ رجعی واقع ہوگئی۔ رجوع کرنے سے رجوع  ہوگیا اور آپ کے پاس مزید صرف ایک طلاق کا حق باقی رہ گیا۔

3ـ اور جب آپ نے میسیج میں یہ بھیجا کہ اگر 15 اکتوبر کو پیسے نہ بھجوائے تو پھر سیدھا طلاق میری طرف سے اور آپ نے  مذکورہ تاریخ کو معینہ رقم نہیں بھجوائی تو اس سے تیسری طلاق واقع ہوگئی ۔ اس کے بعد یہ عورت آپ کے لیےمکمل طور پر حرام ہو گئی۔ اب آپ نہ رجوع کر سکتے ہیں اور نہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرے اور دونوں میاں بیوی والا تعلق قائم کریں اور پھر وہ شوہرطلاق دے تو پھر یہ عورت عدت گزارنے کے بعد سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ علی بن أبی بکر الفرغانی رحمہ اللہ تعالٰی: إذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، هذا بالاتفاق.(الھدایۃ: 244/1)
وقال العلامۃ الحموی رحمہ اللہ تعالٰی: (ومحوه الطلاق كرجوعه عن التعليق): يعني والرجوع عن التعليق لا يصح.  (غمز عیون البصائر: 448/3)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: ولو قال لها: إذا دخلت الدار، أو إذا كلمت فلانا، أو صليت الظهر، أو إذا جاء رأس الشهر، فأنت طالق اثنتين، ثم أقرت بالرق، ثم وجد الشرط طلقت اثنتين، وملك الزوج رجعتها؛ لأن الرجوع عن التعليق لا يصح، فلا يمكنه التدارك(الفتاوٰی الھندیۃ: 209/4)
وقال العلامۃ علاء الدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالٰی: وأما حكم هذه اليمين، فحكمها واحد، وهو وقوع الطلاق، أو العتاق المعلق عند وجود الشرط، فتبين أن حكم هذه اليمين وقوع الطلاق والعتاق المعلق بالشرط……. ومعنى كل واحد منهما حتى إذا وجد ذلك المعنى يوجد الشرط، فيقع الطلاق والعتاق، وإلا فلا. (بدائع الصنائع: 30/3)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (الصريح يلحق الصريح، و) يلحق (البائن) بشرط العدة، (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به، أو رجعيا، فتح.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: (الصريح يلحق الصريح): كما لو قال لها: أنت طالق، ثم قال أنت طالق، أو طلقها على مال وقع الثاني، بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا، أو بائنًا . قوله: ( ويلحق البائن): كما لو قال لها:  أنت بائن، أو خلعها على مال، ثم قال: أنت طالق، أو هذه طالق، بحر عن البزازية. (رد المحتار: 306/3)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها، أو يموت عنها، كذا في الهداية، ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها، أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير، ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل، وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز(الفتاوی الھندیۃ: 473/1)

محمد عبداللہ

6/ ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب