021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نان ونفقہ نہ دینے والے شوہر سے نکاح کیسے ختم کیا جائے؟
70678طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

ایک آدمی کی شادی ہوئی اور اس کے چار بچے ہیں۔اب آدمی نشہ کرتا ہے،ایک دو سال سے گھر نہیں جاتااور  نہ کچھ کماتا ہے ۔ اس کی بیوی بہت پریشان ہے،کیونکہ بچوں کو کوئی کھلانے پلانے والا نہیں ہے،بیوی طلاق لینا چاہتی ہےاور آدمی طلاق نہیں دے رہا۔بیوی طلاق لے کر اس کے بچوں کو اس کے والدین کے حوالے کر کے اپنے گھر جانا چاہتی ہے۔برائے کرم اس مسئلے شرعی حکم کے ذریعے ہماری رہنمائی فرمائے۔

تنقیحِ سوال پر معلوم ہوا کہ شوہر نان ونفقہ ادانہیں کرتا،نشے کی وجہ سے بالکل لاغر ہو چکا ہے،اور  آخری اسٹیج تک جا پہنچا ہے۔خاتون اپنا گزر بسر والدین ،کچھ لوگوں کے تعاون اور گھروں میں کام کاج کر کے کرتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر نان و نفقہ نہ دیتا ہو اور بیوی اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے، تو ایسی صورت میں بیوی شوہر  سے طلاق یا خلع حاصل کر لے۔خلع کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کا راضی ہونا ضروری ہے، یکطرفہ خلع نہیں کروایا جاسکتا۔لیکن اگر شوہرطلاق یا   خلع دینے پر رضامند نہ ہو تو پھر عورت فسخِ نکاح کے لیے عدالت کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔عدالت میں نان ونفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دعوی دائر کیا جائے،عدالت معاملے کی چھان بین کرے گی ،شرعی شہادت طلب کرے گی، بیوی واقعی  اپنے دعوے میں سچی ثابت ہوئی  توعدالت شوہر کو طلب کر کے یہ کہےگی  کہ نان ونفقہ ادا کرویا طلاق دو ۔شوہر کچھ ماننے پر آمادہ نہ ہوا توعدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ صادر کردے گی۔باقی خاتون اگر بچوں کو اپنی مرضی سے شوہر کے والدین کے حولے کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔البتہ ان کو اپنے پاس ہی رکھ کر ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرے تو زیادہ بہتر ہے۔

حوالہ جات
الخلع إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها. (الدر المختار مع رد المحتار: 439,440/5)
وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به،لقوله تعالى ﴿فلا جناح عليهما فيما افتدت به﴾ . (الھدایۃ: 2 /413)
وإذا أسقطت الأم حقها صارت كميتة، أو متزوجة فتنتقل للجدة أي تنتقل الحضانة لمن يلي الأم في الاستحقاق كالجدة إن كانت. (الدر المختار مع رد المحتار: 257/5)
متعنت کی بیوی کے لئے پہلے تو یہ لازم ہے کہ وہ کسی طرح شوہر سے خلع وغیرہ کرے ، لیکن اگر غیرمعمولی جدوجہد کے بعد کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔کیونکہ ان کے نزدیک متعنت کی بیوی کو تفریق کا حق مل سکتا ہے اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ کوئی شخص عورت کے خرچ نان و نفقہ کا انتظام کرتا ہوں نہ خود عورت عصمت و عزت کی حفاظت کرتے ہوئے آمدنی پر قدرت رکھتی ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگرچہ بسہولت خرچہ نان و نفقہ کا انتظام ہو سکتا ہے،لیکن شوہر سے الگ رہنے میں گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو۔اور تفریق کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ قاضی شرع، یا مسلمان حاکم اور ان دونوں کے نہ ہونے کی صورت میں (شرعی کمیٹی )جماعت المسلمین میں پیش کرے اور جس شخص کے پاس پیش ہو وہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعے سے مکمل تحقیق کرے اور اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہو کہ وسعت کے باوجود شوہر نان و نفقہ ادا نہیں کرتا تو اس عورت کے شوہر سے کہا جائے گا کہ تم یا تو اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو یا طلاق دے دو ورنہ ہم تفریق واقع کر دیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ شوہر کسی صورت عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو شخص اس کے قائم مقام ہو طلاق واقع کرے اس میں کسی مدت کے انتظار اور مہلت کی حضرات مالکیہ کے متفقہ مذہب کے مطابق ضرورت نہیں ہے۔(الحیلۃ الناجزہ:129-131)

راجہ باسط علی

08/ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ باسط علی ولد غضنفر علی خان

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب