021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اس شرط پر ایڈوانس پیمنٹ کرنا کہ قیمت بڑھنے کی صورت میں سودا اسی قیمت پر ہوگا،جبکہ کم ہونے کی صورت میں کم قیمت پر ہوگا
70708خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اگرکسی شخص کو مکان بنوانا ہو تو وہ مکان بنانے کی مدت سے پانچ چھ ماہ پہلے جہاں سے سیمنٹ،سریا وغیرہ خریدنا ہو اسے پیسے دے دیتا ہے،یعنی مال خریدنے سے پہلے ہی تمام رقم ایڈوانس دیتا ہے اور یہ معاہدہ کرتا ہے کہ وقت مقرر پر میں آپ سے مطلوبہ سامان خریدلوں گا۔

اس معاہدے کی رو سے گاہک یہ شرط بھی لگاتا ہے کہ اگر وقت مقرر پر مطلوبہ اشیاء کی قیمت آج والی رہی یا کم ہوگئی تو اس صورت میں تو اس وقت کی قیمت پر خریداری ہوگی،لیکن اگر بڑھ گئی تو دکاندار کو زائد رقم لینے کا اختیار نہیں ہوگا،بلکہ وہی سابقہ رقم اسے ملے گی جو معاہدہ کرتے وقت مارکیٹ میں رائج تھی۔

سوال یہ ہے کہ اس طرح کا معاہدہ کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟مستقبلِ قریب میں بندہ کا مکان بنانے کا ارادہ ہے،اس لیے اس حوالے سے بندہ کی راہنمائی کی درخواست ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ صورت میں خریداری کا معاملہ رقم دیتے وقت نہیں ہوتا،بلکہ پانچ چھ ماہ بعد ہوتا ہے،اس لیے خریداری کے معاملے سے پہلے دکاندار کو ایڈوانس دی جانے والی رقم کی حیثیت قرض کی ہوگی،جس پر خریدار یہ نفع لے رہا ہے کہ قیمت بڑھنے کی صورت میں سودا اس دن کی قیمت پر ہوگا جس دن اس نے دکاندار کو رقم دی ہے،اضافی قیمت نہیں دے گا،البتہ کم ہونے کی صورت میں سودا کم قیمت پر ہوگا ،جبکہ قرض پر کسی قسم کی مشروط منفعت حاصل کرنا سود کے حکم میں ہے،اس لیے اس طریقے سے معاملہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

اس کا شرعی لحاظ سے صحیح متبادل طریقہ یہ ہے کہ یہ معاملہ بیع سلم کی بنیاد پرکیا جائے،لیکن سلم کی بنیاد پر معاملہ کرتے وقت بیع سَلم کی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں:

  1. خریدی جانے والی چیز کی جنس معلوم ہو،مثلا بجری،سریا وغیرہ۔
  2. خریدی جانے والی چیز کی نوع معلوم ہو،یعنی کس کمپنی  کی ہوگی۔
  3. خریدی جانے والی چیز کا معیار معلوم ہو کہ ادنی،اعلی یا درمیانے درجے کی ہوگی۔
  4. مقدار معلوم ہو۔
  5. مدت معلوم ہو جو کم از کم ایک مہینہ ہو،اس سے کم نہیں۔
  6. حوالگی کی جگہ کی تعیین ہو کہ دکاندار خود پہنچائے گا یا خریدنےوالا دکان سے لے کر جائے گا۔
  7. مکمل ثمن یعنی قیمت اسی مجلس میں دکاندار کے حوالے کردی جائے،جس میں سودا طے کیا جائے۔

اس طرح بیعِ سلم کی بنیاد پر معاملہ کرتے وقت خریدی جانے والی چیز کی کوئی بھی قیمت باہمی رضامندی سے طے کی جاسکتی ہے،مارکیٹ ریٹ پر معاملہ ضروری نہیں،اس سے کم یا زیادہ قیمت پر بھی کیا جاسکتا ہے،لیکن جو قیمت بھی باہمی رضامندی سے طے ہوجائے،بعد میں قیمت کم ہونے یا بڑھنے کی وجہ سے اس طے شدہ قیمت میں کمی بیشی جائز نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
" رد المحتار" (5/ 166):
"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه". 
"الدر المختار " (5/ 214):
"(وشرطه) أي شروط صحته التي تذكر في العقد سبعة (بيان جنس) كبر أو تمر (و) بيان (نوع) كمسقي أو بعلي (وصفة) كجيد أو رديء (وقدر) ككذا كيلا لا ينقبض ولا ينبسط (وأجل وأقله) في السلم (شهر) به يفتى.....
 (و) بيان (قدر رأس المال) إن تعلق العقد بمقداره كما (في مكيل وموزون وعددي غير متفاوت) واكتفيا بالإشارة...
 (و) السابع بيان (مكان الإيفاء) للمسلم فيه (فيما له حمل) أو مؤنة ومثله الثمن والأجرة والقسمة وعينا مكان العقد".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/ربیع الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب