021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کی طرف سے زکاۃ اور قربانی ادا کرنے کا حکم
70745زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

ایک عورت کی 2012 میں شادی ہوئی اور بطور مہر کے پونے تین تولہ سونا دیا گیا۔ 2020 میں اس عورت کا انتقال ہوگیا۔ اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی اور قربانی بھی نہ کرسکی۔ اب اس کی جانب سے اس کے اہل و عیال زکاۃ ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ نیز زکاۃ اسی سونے سے ادا کی جائے گی یا اہل وعیال کو اپنی طرف سے ادا کرنی پڑے گی۔ اس کے ساتھ قربانی کی بھی وضاحت فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس شخص پر زکاۃ اور قربانی واجب ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں اس کی ادائیگی کردے ، خواہ مخواہ تاخیر نہ کرے۔ اگر ادا کیے بغیر مرجائے تو اس کے ذمے سے زکاۃ اور قربانی دونوں ساقط ہوجاتے ہیں، البتہ زندگی میں ادا نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔

 مذکورہ مسئلے میں مرحومہ کے ذمے جتنے سالوں کی زکاۃ اور قربانی واجب تھی وہ انتقال کے بعد ساقط ہوگئی۔ اگر مرحومہ نے اس بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی تو اس صورت میں ان کے ورثاء اور اہل وعیال پر لازم نہیں کہ ان کی طرف سے ادائیگی کریں ،البتہ اگر وہ اپنی طرف سے بطور احسان اور تبرع ادا کردیں تو  اس صورت میں مرحومہ کی طرف سے زکاۃ اور قربانی تو ادا نہیں ہوگی البتہ اس کا ثواب ان تک پہنچ جائےگا۔ ادائیگی سونے سے بھی ہوسکتی ہے اور اس کی قیمت سے بھی ہوسکتی ہے۔زکاۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ جس سال مرحومہ کی ملکیت میں سونا آیا تھا اس کے ساتھ اگر کچھ نقدی بھی تھی، پھر ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہی نصاب موجود تھا( مذکورہ سونے کے ساتھ کچھ نقدی) تو اس سال سونے کی قیمت لگاکر اس میں نقدی  بھی شامل کرلی جائے اور اس کا ڈھائی فیصد  نکالا جائے۔ پھر اگلے سال ڈھائی فیصد رقم منہا کرکے بقیہ مال کی قیمت لگاکر اس کا ڈھائی فیصد نکالا جائے۔ اسی طرح پورے آٹھ سالوں کی زکاۃ کا حساب لگایا جاسکتا ہے۔ جب کہ قربانی کا طریقہ یہ ہے کہ جس سال کی قربانی واجب تھی اس سال ایک حصہ کے بقدر جتنی رقم بنتی ہے وہ دی جائے گی، اسی طرح بقیہ سالوں کا حساب ہوگا۔

 اگر مرحومہ نے زکاۃ اور قربانی ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو اس صورت میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق  ورثاء پر لازم ہے کہ صرف ترکے کے ثلث تک ان کی وصیت پر عمل کرکے ادائیگی کردیں،ثلث سے زیادہ ادائیگی نہ کریں الا یہ کہ تمام ورثاء بالغ اور راضی ہوں۔

یاد رہے کہ  یہ حکم تب ہے جب مرحومہ کی ملکیت میں مذکورہ سونے کے ساتھ کچھ نقدی یا چاندی بھی موجود تھی۔ اگر صرف سونا تھا تو پھر کچھ بھی واجب نہیں۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 271)
 وإذا لم يؤد إلى آخر عمره يتضيق عليه الوجوب، حتى لو لم يؤد حتى مات يأثم.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 227)
لو مات من عليه الزكاة لا تؤخذ من تركته لفقد شرط صحتها، وهو النية إلا إذا أوصى بها فتعتبر من الثلث كسائر التبرعات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 301)
ومن جملة الأسباب المسقطة للزكاة موت من عليه مال، قال أصحابنا رحمهم الله: إذا مات من عليه الزكاة تسقط الزكاة بموته حتى أنه إذا مات عن زكاة سائمة، فالساعي لا يجبر الوارث على الأداء، ولو مات عن زكاة التجارة لا يجب عليه الأداء فيما بينه وبين ربه. ثم إذا أوصى قائماً يجب على الوارث تنفيذ الوصية بقدر الثلث؛ لأن الميت لو لم يوص بذلك لكن تسلم الورثة جميع المال لو بطل حقهم عن بعض المال، إنما يبطل بحكم الوصية، وعمل الوصية في مقدار الثلث، لا في الزيادة على الثلث.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 335)
لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس.

سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

                                                                                         17/04/1442ھ              

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب