021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سنا مکی سے متعلق روایت کی تحقیق
69678حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

سوال یہ ہے کہ کیا سنامکی میں شفاء سے متعلق کوئی حدیث وارد ہے؟ اگر وارد ہے تو وہ کس درجے کی حدیث ہے؟ نیزکسی مستند حدیث سے ثابت ہونے کی صورت میں کیا اس میں ہر بیماری سے شفاء ہے؟ جبکہ مشاہدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس کو استعمال کیا تو بیماری مزید بڑھ گئی، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔لہذا اس بات کی وضاحت فرما دیجیے کہ کیا ہرشخص اس کو بطورِ علاج استعمال کر سکتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نامکی کے بارے میں کتب حدیث میں مختلف روایات منقول ہیں، ان میں سے بعض روایات میں ضعفِ شدید پایا جاتا ہے، البتہ بعض روایات سند کے اعتبار سے صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہیں، جن میں سے ایک روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب السنن الکبری میں درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے: السنن الكبرى للنسائي (7/ 86، رقم الحديث: 7533 ) مؤسسة الرسالة – بيروت: أخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا إبراهيم بن موسى، قال: أخبرنا حاتم، عن محمد بن عمارة، عن عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث فيهن شفاء من كل داء إلا السَّامَ السَّنَا وَالسَّنُّوتُ» قال محمد: ونسيت الثالثة " قالوا: يا رسول الله، هَذَا السَّنَا قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا السَّنُّوتُ؟ قال: «لو شاء الله لعرَّفَكموه» اس حدیث کو امام ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں اسی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس روايت پر ائمہ کرام اور حضراتِ محدثین اور ائمہ کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں تلاش کے باوجود بندہ کو کوئی صریح حکم نہیں ملا، اس لیے ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کی عبارات کی روشنی میں مذکورہ سند کے رواة کی ثقاہت و ضعف کے حوالے سے ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں: سند کے رواة پر ائمہ کرام رحمہم اللہ کا کلام: 1) اس سند كے سب سے پہلے راوی عمرو بن منصور ہیں، ان كو امام نسائی رحمہ الله نے ثقہ، ثبت اور مامون قرار دیا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہی حافظ جمال الدین مزی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کو"ثقة" نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں ان کو "ثقة"اور" ثبت" قرار دیا ہے : مشيخة النسائي /تسمية الشيوخ (ص: 60، رقم الترجمة: 86 ) لأبي عبد الرحمن النسائي،دار عالم الفوائد - مكة المكرمة: عمرو بن منصور نسائي ثقة ثبت مأمون۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال (22/ 250، رقم الترجمة: 4455) مؤسسة الرسالة – بيروت: س: عمرو بن منصور النسائي ، كنيته أبو سعيد. روى عن: إبراهيم بن موسى الرازي (س) ، وأحمد بن حنبل (س) ، وآدم بن أبي إياس العسقلاني (س) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روى عنه: النسائي فأكثر، وعبد الله بن محمد بن سيار، والقاسم بن زكريا المطرزقال النسائي : ثقة، مأمون، ثبت. وقال أبو محمد عبد الله بن محمد بن سيار الفرهياني: سمعت عباس العنبري يقول: ما قدم علينا مثل عمرو بن منصور، وأبي بكر الوراق، فقلت: من أبو بكر؟ قال: الأثرم. فقلت له: لا نرضى أن يقرن صاحبنا بالأثرم أي أن هذا فوقه. 2) دوسرے راوی ابراہیم بن موسی بن یزید بن زاذان تمیمی ہیں، ان کو امام ابو حاتم رازی اور امام نسائی رحمہ اللہ نے "ثقة" قرار دیا ہے اور حافظ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے بھی انہی حضرات کے حوالے سے ثقہ نقل کیا ہے، اس کے علاوہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے الکاشف میں ان کو"حافظ" اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں "ثقة"اور"حافظ" ہونے كا حكم لگايا ہے۔ نیز ان کی روایات کتب ستہ ( بخاری، مسلم، سنن ابی داود، جامع الترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ) میں بھی موجود ہیں، ان کی وفات دو سو بیس (220ھ) ہجری کے بعد ہوئی ہے۔ الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (2/ 137، رقم الترجمة: 436) دار إحياء التراث العربي – بيروت: إبراهيم بن موسى الرازي ويعرف بالفراء روى عن أبي الأحوص وعبد الوارث ويزيد بن زريع وخالد الواسطي وابن أبي زائدة وعيسى ابن يونس سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك، وزاد أبو زرعة في نسبه: ابن يزيد بن زاذان التميمي. سمعت أبا زرعة يقول: إبراهيم بن موسى أتقن من أبي بكر بن أبي شيبة وأصح حديثا منه لا يحدث إلا من كتابه لا أعلم أني كتبت عنه خمسين حديثا من حفظه، وهو أتقن وأحفظ من صفوان بن صالح. سمعت أبي يقول: إبراهيم بن موسى من الثقات وهو أتقن من أبي جعفر الجمال. تهذيب الكمال في أسماء الرجال (2/ 219، رقم الترجمة: 254) مؤسسة الرسالة – بيروت: ع: إبراهيم بن موسى بن يزيد بن زاذان التميمي، أبو إسحاق الرازي الفراء المعروف بالصغير، وكان أحمد بن حنبل ينكر على من يقول له الصغير، ويقول: هو كبير في العلم والجلالة روى عنه: إبراهيم بن موسى الزيات الموصلي، وأحمد بن بشير الكوفي، وبقية بن الوليد (بخ د) ، وجرير بن عبد الحميد (د) ، وحاتم ابن إسماعيل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روى عنه: البخاري (ت) ، ومسلم، وأبو داود، وإبراهيم بن مطرف الإستراباذي، وأحمد بن علي بن إسماعيل بن علي بن أبي بكر الرازي الأسفذني، وإسماعيل بن عمر (د) ، والحسين بن علي بن محمد الطنافسي القزويني، وأبو الهيثم خالد بن يزيد الرازي، وأبو زرعة عبيد الله بن عبد الكريم الرازي، وعمرو بن منصور النسائي (س)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال أبو زرعة : هو أتقن من أبي بكر بن أبي شيبة، وأصح حديثا منه، لا يحدث إلا من كتابه، لا أعلم أني كتبت خمسين حديثا من حفظه، وهو أتقن وأحفظ من صفوان بن صالح وقال أبو حاتم: من الثقات وهو أتقن من أبي جعفر الجمال، يعني محمد بن مهران الرازي -وقال صالح بن محمد الحافظ: سمعت أبا زرعة يقول: كتبت عن إبراهيم بن موسى الرازي مئة ألف حديث، وعن أبي بكر بن أبي شيبة مئة ألف حديث وقال النسائي: ثقة۔ 3) تیسرے راوی حاتم بن اسماعیل مدنی ہیں، ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی آراء مختلف ہیں، بعض حضرات نے ان کے بارے میں معمولی جرح کے الفاظ جیسے "فیہ غفلة اور "لیس بالقوی "وغیرہ ذکر کیے ہیں، جبکہ دیگرائمہ کرام رحمہم اللہ نے ان کو "ثقة" قرار دیا ہے، چنانچہ امام محمد بن سعد رحمہ اللہ نے الطبقات الکبری میں ان کو "ثقة" اور "مامون" کہا ہے، حافظ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے بھی ابن سعد رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کو "ثقة" اور "مامون"نقل کیا ہے، اسی لیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے الکاشف میں ان پر"ثقة"ہونے کا حکم لگایا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "صدوق يهم" کے الفاظ لکھے ہیں اور یہ الفاظ بھی ائمہ کرام رحمہم اللہ کے ہاں تعدیل کے لیے استعمال ہوتے ہیں، نیز ان سے امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ سمیت کتب ستہ کے دیگر مصنفین نے بھی اپنی کتب میں روایات لی ہیں، نیز ان کی طرف تدلیس کی نسبت بھی نہیں کی گئی، لہذا ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں ان کی روایات احکام اور فضائل دونوں میں قبول ہو گی، ان کی وفات ایک سو ستاسی (187ھ) ہجری میں ہوئی: الطبقات الكبرى (5/ 425) لمحمد بن سعد(المتوفى:230ھ) دار صادر – بيروت: حاتم بن إسماعيل , ويكنى أبا إسماعيل. قال: قال محمد بن عمر: أشهدني أنه مولى لبني عبد المدان بن الديان من بني الحارث بن كعب , وأعطاني سجل أبيه , وقال: لا تذكره حتى أموت , وكان أصله من أهل الكوفة , ولكنه انتقل إلى المدينة , فنزلها حتى مات بها سنة ست وثمانين ومائة في خلافة هارون الرشيد , وكان ثقة مأمونا كثير الحديث۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال (5/ 187، رقم الترجمة: 992 ) مؤسسة الرسالة – بيروت: ع: حاتم بن إسماعيل المدني ، أبو إسماعيل مولى بني عبد المدان من بني الحارث بن كعب. قال الواقدي : أشهدني أنه مولى لهم، وأعطاني سجل أبيه، وقال: لا تذكره حتى أموت، وأصله من الكوفة. روى عن: أسامة بن زيد الليثي۔۔۔۔۔۔۔۔ومحمد بن عمارة بن عمرو بن حزم (س) ، ومحمد بن أبي يحيى الأسلمي، ومحمد بن يوسف ابن أخت النمر (خ ت) ، ومصعب بن ثابت بن عبد الله بن الزبير بن العوام (د) ، ومعاوية بن أبي مزرد (خ م) ، ومهاجر بن مسمار (م) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔روى عنه: إبراهيم بن حمزة الزبيري (ز د سي) ، وإبراهيم بن موسى الرازي (س)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال أبو حاتم: هو أحب إلي من سعيد بن سالم. وقال النسائي: ليس به بأس . وقال محمد بن سعد: كان أصله من الكوفة، ولكنه انتقل إلى المدينة فنزلها، ومات بها سنة ست وثمانين ومئة في خلافة هارون، وكان ثقة مأمونا كثير الحديث وقال البخاري عن أبي ثابت المديني: مات سنة سبع وثمانين ومئة. وقال أبو حاتم بن حبان: مات ليلة الجمعة لتسع ليال مضين من جمادى الأولى سنة سبع وثمانين ومئة. روى له الجماعة. 4) اس سند کے پانچویں راوی محمد بن عمارہ بن حزم انصاری ہیں، ان کو امام یحی بن معین اور امام ابن حبان رحمہ اللہ "ثقة" قرار دیا ہے، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے "صالح الحدیث، ليس بذاك القوي" فرمایا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام یحی بن معین کی توثیق اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ کا قول نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور ائمہ کرام رحمہم اللہ جب "ليس بذاك القوي" کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں توعام طور پراس سے ان کی راوی کے ضبط اور حافظہ میں کمزوری مراد ہوتی ہے، اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں ان پر "صدوق یخطئ " کا حکم لگایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ راوی سچے ہیں، مگر کبھی روایت کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (8/ 44، رقم الترجمة: 204 ) دار إحياء التراث العربي – بيروت: محمد بن عمارة بن عمرو بن حزم الحزمى الانصاري روى (30 م 5) عن أبي بكر بن عمرو بن حزم ومحمد بن ابراهيم التيمى وعبد الله ابن [عبد الله بن] أبي طلحة وعبد الله بن عبد الرحمن ابى طوالة وزينب ابنة نبيط روى عنه مالك {بن أنس] وحاتم بناسماعيل وعبد الله بن ادريس وصفوان بن عيسى وعاصم بن عبد العزيز الاشجعى وأبو عاصم النبيل سمعت أبي يقول ذلك {ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: محمد بن عمارة الحزمى ثقة] نا عبد الرحمن قال سئل ابى عن محمد بن عمارة الذى يحدث عنه مالك فقال: هو صالح الحديث ليس بذاك القوى. تهذيب الكمال في أسماء الرجال (26/ 167، رقم الترجمة: 5494) مؤسسة الرسالة – بيروت: 4۔محمد بن عمارة بن عمرو بن حزم الأنصاري الحزمي المدني. روى عن: عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة (س) ، وأبي طوالة عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر بن حزم الأنصاري، ومحمد ابن إبراهيم بن الحارث التيمي (د ت كن ق) ، وابن عمه أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم (مد ق) ، وزينب بنت نبيط امرأة أنس بن مالك. روى عنه: حاتم بن إسماعيل (س)، وصفوان بن عيسى، وأبو عاصم الضحاك بن مخلد، وعاصم بن عبد العزيز الأشجعي، وعبد الله بن إدريس (مد ق) ، ومالك بن أنس (د ت كن ق) . قال إسحاق بن منصور ، عن يحيى بن معين: ثقة. وقال أبو حاتم: صالح، ليس بذاك القوي. وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات". الكاشف (2/ 204، رقم الترجمة: 5071) دار القبلة للثقافة الإسلامية جدة: محمد بن عمارة بن عمرو بن حزم عن بن عمه محمد بن أبي بكر ومحمد بن إبراهيم التيمي وعنه مالك وأبو عاصم وثقه بن معين وقال أبو حاتم ليس بذاك القوي۔ تقريب التهذيب (ص: 498، رقم الترجمة: 6167) دار الرشيد – سوريا: محمد ابن عمارة ابن عمرو ابن حزم الأنصاري المدني صدوق يخطىء من السابعة 4۔ 5) پانچویں راوی عبداللہ بن عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری ہیں، یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان كو رواة کے چوتھے طبقہ میں شامل کیا ہے، جو عام طور پر کبار تابعین سے روایات لیتے ہیں، یہ بھی ثقہ راوی ہیں، چنانچہ ان کو امام ابوزرعہ رازی اور امام نسائی رحمہ اللہ "ثقة" قرار دیا ہے، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے ان کو صالح قرار دیا ہے، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے بھی ان پر"ثقة"کا حکم لگایا ہے، ان کی امام مسلم اور دیگر مصنفین رحمہم اللہ نے روایات لی ہیں۔ان کی وفات ایک سو چونتیس ہجری (134ھ) میں ہوئی۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال (15/ 177،رقم الترجمة: 3364) مؤسسة الرسالة – بيروت: م س: عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة الأنصاري، أبويحيى المدني، أخو: إسحاق، وإسماعيل، وعمرو، ويعقوب بني عبد الله بن أبي طلحة. روى عن: عمه أنس بن مالك (م س) ، وأبيه عبد الله بن أبي طلحة. روى عنه: سعيد بن عبد الرحمن الجمحي، وعبد الله بن جعفر المدني، ومحمد بن عمارة بن عمرو بن حزم (س) ، ومحمد بن موسى الفطري (م س) ، ومصعب بن ثابت بن عبد الله بن الزبير، ومعاوية بن أبي مزرد. قال إبراهيم بن الجنيد ، عن يحيى بن معين: إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، وأخواه: إسماعيل وعبد الله ثقات. وقال أبو زرعة ، والنسائي: ثقة. وقال أبو حاتم : صالح. وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات". قال الواقدي: مات سنة أربع وثلاثين ومئة، وكان أصغر من أخيه إسحاق. روى له مسلم حديثا، والنسائي ثلاثة. وقد وقع لنا حديث مسلم عاليا جدا. الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (5/ 91، رقم الترجمة: 418) دار إحياء التراث العربي – بيروت: عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة الأنصاري روى عن أنس روى عنه محمد بن موسى ومعاوية بن أبي مزرد سمعت أبي يقول ذلك. قال أبو محمد وروى عنه سعيد بن عبد الرحمن الجمحي، سمعت أبي يقول: عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة هو صالح. نا عبد الرحمن قال سمعت أبا زرعة يقول: عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بن أبي طلحة ثقة. الكاشف (1/ 566، رقم الترجمة: 2806) الناشر: مطابع الحميضي: عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة الانصاري عن أبيه وعمه أنس وعنه سعيد بن عبد الرحمن الجمحي ومحمد بن موسى الفطري ثقة توفي 134 م س۔ تقريب التهذيب (ص: 309، رقم الترجمة: 3415) دار الرشيد – سوريا: عبد الله ابن عبد الله ابن أبي طلحة الأنصاري أبو يحيى المدني أخو إسحاق ثقة من الرابعة مات سنة أربع وثلاثين م س۔ 6) اس سند کے چھٹے اور آخری راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں، جو مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی عدالت پر امت کا اتفاق ہے۔ مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت: مذکورہ حدیث کے رواة کے بارے میں پیچھے ذکرکردہ ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سند میں کوئی بھی روای ضعیف نہیں، البتہ تیسرے نمبر کے راوی حاتم بن اسماعیل کے بارے میں فیہ غفلة اور صدوق یھم کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں، اسی طرح چوتھے نمبر کے راوی محمد بن عمارہ کے بارے میں امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے "صالح الحدیث، ليس بذاك القوي" اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "صدوق یخطئ" کے الفاظ لکھے ہیں اور ائمہ كرام رحمہم اللہ ایسے الفاظ ان رواة کے بارے میں ذکر فرماتے ہیں جن کے حافظہ اور ضبط میں کچھ مسئلہ ہو اور ایسی روایت جس کے رواة فی نفسہ ثقہ ہوں اور صرف ضبط میں کچھ کمزوری ہو وہ روایت سند کے اعتبار سے حسن لذاتہ شمار ہوتی ہے،بشرطیکہ اس روایت میں حدیثِ صحیح کی بقیہ تمام شرائط(راوی کا عادل ہونا، سند کا متصل ہونا، اس روایت میں شذوذ اور علت کا نہ ہونا) موجود ہوں۔ اور اس روایت میں یہ تمام شرائط موجود ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے: پہلی شرط: اس کے تمام راوی عادل ہوں، یہ شرط اس طرح پائی گئی کہ ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ نے اس کے تمام رواة کو عادل قرار دیا ہے۔جیسا کہ عبارات پیچھے گزر چکی ہیں۔ دوسری شرط: اس کی سند متصل ہو، اس روایت کی سندبھی متصل ہے، کیونکہ پہلے تین رواة نے صیغہٴ تحدیث کے ذریعہ روایت بیان کی ہے، جو کہ سند کے متصل ہونے کی علامت ہے اور آخری دو راویوں نے اگرچہ صیغہٴ "عن" استعمال کیا ہے، مگر ائمہ جرح وتعدیل نے ان رواة کے آپس میں ایک دوسرے سے روایت لینے کی تصریح موجود ہے اور ان میں سے کوئی راوی مدلس بھی نہیں ہے اور حدیث معنعن میں جب راوی اور مروی عنہ کے درمیان امکان ِ لقاء ہو اور راوی مدلس نہ ہو تو اس کا عنعنہ معتبر ہوتا ہے، اس لیے اس کی سند کو متصل شمار کیا جائے گا۔ تیسری شرط: اس روایت میں شذوذ نہ ہو تو یہ روایت شاذ بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت ثقات کی روایت کے خلاف نہیں، بلکہ ثقات کی بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں ایک حدیث نقل کی ہے اور انہوں نے اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے، نیز علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر صحیح کا حکم لگایاہے اور اس روایت کے آخری جملے میں یہ مذکور ہے کہ اگر موت سے کسی چیز میں شفاء ہوتی تو سنامکی میں ہوتی، روایت ملاحظہ فرمائیں: المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 448، رقم الحديث: 8233) دار الكتب العلمية – بيروت: حدثنا أبو بكر أحمد بن سلمان الفقيه ببغداد، ثنا يحيى بن حفص بن الزبرقان، ثنا أبو بكر بن عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، ثنا عبد الحميد بن جعفر، عن عتبة بن عبد الله التيمي، عن أسماء بنت عميس رضي الله عنها، قالت: سألني رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بماذا تستمشين؟» قلت: بالشبرم، قال: «حار حار» قالت: ثم استمشيت بالسناء، قال: «لو كان في شيء شفاء من الموت لكان في السناء» هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه " [التعليق - من تلخيص الذهبي] 8233 - صحيح۔ چوتھی شرط: اس میں علتِ قادحہ موجود نہ ہو، یہ شرط بھی اس میں موجود ہے، کیونکہ ائمہ کرام رحمہم اللہ نے اس روایت کی سند یا متن میں کسی علت کی نشاندہی نہیں کی، لہذا بغیر کسی دلیل کے اس حدیث کو معلل بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے یہ روایت اصولِ حدیث کی روشنی میں سنداً حسن لذاتہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس روایت کو امام ضیاءالدین محمدبن عبدالواحد المقدسی نے اپنی کتاب "الاحادیث المختارۃ ممالم یخرجہ البخاری ومسلم فی صحیحیھما" میں بھی ذکر کیا ہے اور اس کتاب کو صحاح میں شامل کیا گیا ہے، نیز شیخ شعیب ارنؤوط رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ روایت کی تخریج میں اس کی سند کے کسی راوی پر ضعف کا حکم لگایا ہے، لہذا اس حدیث میں بیان کی گئی سنامکی کی فضیلت ثابت اور درست ہے۔ مذکورہ حدیث کی تشریح: پیچھے ذکرکی گئی حدیث میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے: 1) السَّنا: السَّنا کا اردو ترجمہ سنامکی سے کیا گیا ہے، یہ ایک بوٹی کا نام ہے، جو حجاز میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ (القاموس الوحيد:ص: 813) 2) السَّنُّوت: اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں شراحِ حدیث رحمہم اللہ نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں، ملا علی قاری رحمہ اللہ نے تین قول نقل کیے ہیں: پہلا قول یہ کہ اس سے مراد شہد ہے، دوسرا یہ کہ اس سے مراد الرُّبُّ یعنی کھجور وغیرہ کا شیرہ ہے جس کو پکا کر گاڑھا کر لیا گیا ہو۔ تیسرا قول یہ کہ اس سے مراد الْكَمُّونُ یعنی زیرہ یا اس طرح کی کوئی خوشبودار چیز ہے، جو کھانے میں ڈالی جاتی ہے۔ علامہ نورالدین سندی رحمہ اللہ نے بھی سننِ ابن ماجہ کے حاشیہ میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہی تین قول نقل کیے ہیں۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2873) دار الفكر، بيروت: وفي رواية ابن ماجه والحاكم بسند صحيح، عن عبد الله بن أم حرام: ( «عليكم بالسنا والسنوت، فإن فيهما شفاء من كل داء إلا السام» ) وهو الموت، والسنوت قيل العسل، وقيل الرُّبُّ، وقيل الْكَمُّونُ. وفي القاموس: السَّنُّوتُ، كتنورِ وسِنَّوْرِ: الزُّبْدِ، وَالْجُبْنُ، والعسل، وضرب من التمر، والرُّبُّ، والشِّبِتُّ، والرَّازِيَانِجُ، والْكَمُّونُ. حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 344) نورالدين السندي، دار الجيل - بيروت: قوله: (وَالسَّنُّوتُ) نقل السيوطي عن النهاية أنه العسل، وقيل: الرُّبُّ، وقيل: هو الْكَمُّونُ ويروى بضم السين والفتح أفصح ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض لوگوں کے سنا مکی استعمال کرنے کی وجہ سے ان کو شفاء نہیں ہوئی، بلکہ مرض میں مزید اضافہ ہو گیا تو اس سلسلے میں دو باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہیں: پہلی بات: یہ ضروری نہیں کہ ہر دوا ہر مریض کے لیے فائدہ مند ہو، کیونکہ ممکن ہے اس شخص کوکوئی اور بیماری لاحق ہو جس کی وجہ سے حدیث میں بیان کی گئی دوا اس پر اثر انداز نہ ہویا نقصان دہ ہو، نیز طب کے اصولوں کے مطابق دوا کی مقدار کا مریض کی قوتِ برداشت کے حساب سے ہونا بھی از حد ضروری ہے، ورنہ ایک وقت میں زیادہ مقدار میں دوا دینے سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے اور دوا کی کمی کی وجہ سے افاقہ ہونے میں دیر ہو سکتی ہے، جیسا کہ آج کل کی میڈیکل سائنس میں یہ بات تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے اور يہ بات ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے، چنانچہ بخاری شریف کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں: صحيح البخاري (7/ 123، رقم الحديث:5684) دار طوق النجاة: عن أبي سعيد: أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أخي يشتكي بطنه، فقال: «اسقه عسلا» ثم أتى الثانية، فقال: «اسقه عسلا» ثم أتاه الثالثة فقال: «اسقه عسلا» ثم أتاه فقال: قد فعلت؟ فقال: «صدق الله، وكذب بطن أخيك، اسقه عسلا» فسقاه فبرأ۔ ترجمہ:حضرتِ ابو سعیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک آدمی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا :میرا بھائی پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس کو شہد پلاوٴ،وہ دوسری بار آیا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس کو شہد پلانے کی تاکید کی،اسی طرح تیسری مرتبہ بھی، جب چوتھی بار آ کر اس نے شکایت کی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے بھائی کا پیٹ تو جھوٹا ہوسکتا ہے، لیکن الله کا کلام تو سچاہی ہے ،اس کو پھر شہد پلاوٴ، اس نے اس مرتبہ جا کر جب شہد پلایا تو اس کو شفا نصیب ہو گئی۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر اور ملاعلی قاری رحمہما اللہ نے لکھا ہے کہ دواء کے مفید اور پرتاثیر ہونے میں دواء کی مقدار اور اس کی قوت کا بھی دخل ہے، اگر دواء کم مقدار میں دی گئی تو زیادہ فائدہ مند نہ ہو گی اور اگر زیادہ مقدار میں دے دی گئی تو نقصان دے سکتی ہے۔ لہذا اس حدیث سے پيٹ كے مرض كے سلسلہ میں افادیتِ شہد کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ طبّ کے ایک بنیادی اور اہم ترین اصول کی طرف راہ نمائی بھی ملتی ہے کہ کسی بھی مرض کے علاج کے لیے دوا کی مقدار،اس کی کیفیت اور مریض کی قوت کی رعایت اور لحاظ رکھنا دوا کے مفید ہونے کے لیے انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں چوتھی بارشہد کے استعمال کرنے پر مرض سے افاقہ ہوا۔ لہذا دوا کی مطلوبہ مقدار کی کمی بیشی یا مریض کی قوتِ برداشت کمزور ہونے کی وجہ سے اگرمطلوبہ مقدار میں زیادتی کی بناء پر دواء سے نقصان ہو تو اس سے حدیث ِپاک میں بیان کیے گئے مضمون کا غلط ہونا یا روایت کا درست نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ فتح الباري لابن حجر (10/ 169) دار المعرفة – بيروت: وإنما لم يفده في أول مرة لأن الدواء يجب أن يكون له مقدار وكمية بحسب الداء إن قصر عنه لم يدفعه بالكلية وإن جاوزه أو هي القوة وأحدث ضررا آخر فكأنه شرب منه أولا مقدارا لا يفي بمقاومة الداء فأمره بمعاودة سقيه فلما تكررت الشربات بحسب مادة الداء برأ بإذن الله تعالى وفي قوله صلى الله عليه وسلم وكذب بطن أخيك إشارة إلى أن هذا الدواء نافع وأن بقاء الداء ليس لقصور الدواء في نفسه ولكن لكثرة المادة الفاسدة فمِن ثَم أمره بمعاودة شرب العسل لاستفراغها فكان كذلك۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2863) دار الفكر، بيروت: وقال السيد جمال الدين في روضة الأحباب: الحكمة في تكرار الأمر أن سقي العسل لا بد له من كمية وكيفية مختلفتين بحسب اختلاف أحوال المريض، فإنه إن زيد يسقط في قوته، وإن نقص لا يزيل المرض ولا يفيده، ولما لم يسقه. المقدار المطلوب المقاوم للمرض أمره بالزيادة إلى أن يحصل الشفاء. (ثم جاء الرابعة) : أي جاء في المرة الرابعة، وقال ما سبق (فقال: اسقه عسلا فقال: لقد سقيته): أي ثلاث مرات، وهو المقدار المتعارف في تكرار العلاج۔ دوسری بات: دوسری بات یہ کہ موت سے کسی چیز میں شفاء نہیں ہے، کیونکہ تقدیر میں اس کا ایک وقت مقرر ہے، جو ٹل نہیں سکتا، اسی لیے احادیثِ مبارکہ میں جو چیزیں بطورِ علاج بیان فرمائی گئی ہیں، ان میں بعض کے ساتھ یہ تصریح فرمائی گئی ہے کہ اس میں سوائے موت کے ہر بیماری سے شفاء ہے اور سنامکی کے بارے میں مستدرک حاکم اور امام نسائی رحمہ اللہ کی سنن کبری کے حوالے سے جو روایات پیچھے ذکر کی گئی ہیں ان دونوں میں بھی یہ وضاحت منقول ہے، لہذا سوال میں ذکرکردہ افراد كا انتقال ہوجانے سے یہ اعتراض نہیں کیاجا سکتا کہ سنامکی سے شفاء کیوں نہیں ہوئی؟ کیونکہ یہ بات پہلے ہی آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ اس میں موت سے شفاء نہیں ہے۔

حوالہ جات
الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني (2/ 583، رقم الحديث: 612 ) دار ابن حزم: حدثنا عبد الله بن جعفر، حدثنا إسماعيل بن عبد الله، حدثنا على بن بحر، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن محمد بن عمارة، عن عبد الله بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم [ص:584] قال: ثلاث فيهن الشفاء من كل داء إلا السام السنا والسنوت قالوا: هذا السنا قد عرفناه فما السنوت؟ قال: لو شاء الله لعرفكموه. قال محمد: ونسيت الثالثة.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

  20/ذوالقعدہ 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب