03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں کےکاروبارمیں بطورشریک ومضارب کام سےمتعلق سوالات
70770مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ میرا قسطوں کا کاروبار ہے۔ ماہانہ ترتیب پر لوگوں کو مختلف اشیاء قسطوں پر دیتا ہوں اور اس کاروبار میں میرے ساتھ کئی ارباب الاموال شریک ہیں اور میں مضارب کے طورپر کام کرتا ہوں اب پوچھنا یہ ہے کہ ارباب الاموال زیادہ ہواور مضارب ایک ہو تو یہ طریقہ کار شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

تنقیح:مفتی صاحب میرا قسطو ں کا کاروبار ہے،ماہا نہ ترتیب پر لوگوں کو مختلف آشیاء قسطوں پر دیتے ہیں، میرےاس کاروبارمیں میرے ساتھ کئی ارباب المال شریک ہیں،اس کاروبار میں میری ذاتی رقم بھی شامل ہے۔ہمارے کاروبار کا طریقہ کار درجہ ذیل ہے،اگر اس میں کوئی ناجائز صورت ہوتومتبادل جائز صورت کی رہنمائی فرمائیں:

1۔تقریبا 10ارباب المال کی رقم کو اکھٹا کیا ہے،یہ سب ارباب المال مختلف اوقات میں آئے ہیں ۔مثلاکوئی جنوری،مارچ،جولائی تو کوئی اکتوبر وغیرہ مختلف مہینوں میں آئے ہیں ۔ جب نیا رب المال آجاتا ہے تو انکو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں۔ اور ٓائندہ ماہ جو منافع یا نقصان ہو جاتا ہے۔تو  اس میں شریک ہو جاتا ہے۔

2۔پرانےارباب المال کےدیون کاجو منافع ہو تا ہے،اُس میں یہ نیا رب المال شریک ہو جاتاہے۔ مثلاجنوری میں ایک گاہک کو موٹر سائیکل قسطوں پر دیاتھااور وہ گاہک کسی عذر کی بنا پر قسط جمع نہیں کرواسکا،6ماہ بعدجولائی میں 6مہینوں کی قسط یک مشت جمع کروائی۔توان  قسطوں سے ملنے والےمنافع میں نئےرب المال کوشریک کرتے ہیں۔

3۔ منافع کے تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے:کہ جو منافع ہوجاتا ہےپہلےاُس منافع سے اخراجات ونقصان نکالتے ہیں ۔ پھر جو منافع بچ جاتے ہیں %50رب المال لیتا ہےاور 50%کمپنی کو ملتےہیں۔

مفتی صاحب اس طریقہ کارپرتمام ارباب المال راضی ہیں۔اور اس طریقہ کار کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں۔کیونکہ اس طریقہ کارکےبغیرکام ہمارےقابو میں نہیں آتا۔اگرکوئی ناجائز صورت ہواورمتبادل کوئی دوسری جائز صورت ہوتورہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 شرعایہ طریقہ کاردرست ہےکہ مضارب ایک ہو،اورارباب الاموال زیادہ ہوں،جس صورت کی آپ نےوضاحت کی ہے،اس کےمطابق شرعاآپ مضارب بھی ہیں اورشریک بھی کیونکہ کچھ سرمایہ آپ کابھی لگاہواہے۔

حوالہ جات

"رد المحتار" 17 / 67:

( قوله : والربح على ما شرطا ) أي من كونه بقدر رأس المال أو لا ۔۔۔۔۔، وقيد بالربح ؛ لأن الوضيعة على قدر المال وإن شرطا غير ذلك كما في الملتقى وغيره۔

"حاشية رد المحتار" 4 / 504:

قوله: (ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لاحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله عكسه أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الاكثر للعامل منهما أو لاكثرهما عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لاقلهما عملا، فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.قلت: والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما.وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر، والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط: وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا.هذا حاصل ما في العناية اه.ما في النهر.قلت: وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الاكثر لغير العامل أو لاقلهما عملا لا يصح، وله ربح ماله فقط،

وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده قلوه: إذا شرطا العمل عليهما الخ فلا ينافي ما ذكره الزيلعي في كتاب۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

21/ربیع الثانی  1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب