021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں کےکاروبارمیں مضاربت کی صورت میں نفع نقصان کی تقسیم
70772مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ میرا قسطوں کا کاروبار ہے۔ ماہانہ ترتیب پر لوگوں کو مختلف اشیاء قسطوں پر دیتا ہوں اور اس کاروبار میں میرے ساتھ کئی ارباب الاموال شریک ہیں اور میں مضارب کے طورپر کام کرتا ہوں، اکثر صورتحال یہ بنتی  ہے کہ مثلاً ایک رب ا لمال آیا اور جنوری2020میں رقم مضاربت کیلئے دی، تو دوسرے رب المال نے جولائی 2020میں رقم مضاربت پر دی جس رب المال سے جنوری 2020میں رقم لی تھی اس رقم پر ایک گاہک کو ماہانہ کے حساب سے فریج قسطوں پر جنوری میں دیا تھا یہ گاہک اپنی  قسط کسی عذر کی بناء پرجمع نہیں کرواسکا، اور اگست 2020 میں ساری  رقم 8مہینوں کی  یک مشت جمع کی تو ان 8مہینوں کی  قسطوں سے ملنے والے نفع میں وہ رب المال شریک ہوگا یا نہیں( جس نے جولائی 2020میں مضاربت پر رقم دی تھی ؟اگر خدا نخواستہ نقصان ہوجائے تو نقصان میں مؤخر رب المال شریک ہوگا یا نہیں ؟نیز مقدم رب المال اور مؤخر رب المال کے رقم کو مخلوط کرنا شرعاً کیسا ہے اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جن مہینوں میں پہلارب المال کاروبارمیں شریک ہی نہیں ہواتھا،اس کےنفع کاحق دارنہیں ہوگا،اگرکسی کسٹمرنےگزشتہ 8 مہینوں کی قسطیں یکمشت اداء کی توجورب المال مثلاآیاہی چارمہینےپہلےہےتواس کواس سےپہلےکے 4 مہینوں کانفع نہیں ملےگا۔

 صورت مسئولہ میں جنوری کوآنےوالارب المال تو8 مہینوں کےنفع کاحق دارہوگا،لیکن جولائی میں آنےوالارب المال صرف جولائی کےبعدوالےمہینوں کےنفع کاحق دارہوگا۔

مضاربت میں نقصان کےبارےمیں اصول یہ ہےکہ نقصان ارباب الاموال  میں ان کےتناسب کےحساب سےتقسیم ہوتاہے،اورنقصان کوپہلےنفع سےپوراکیاجاتاہے،اس کےبعدسرمایہ سے،صورت مسئولہ میں اگرنقصان ہوجاتاہےاوربقول آپ کے پہلےنقصان کوپوراکیاجاتاہےتویہ طریقہ بھی درست ہے،ہررب المال کے سرمایہ کےمطابق اس پرنقصان تقسیم ہوگا۔

ہررب المال اپنےسرمایہ کےحساب سےنقصان میں شریک ہوگا،نقصان کوماہانہ اعتبارسےتقسیم کیاجائےگا،سابقہ مہینوں کےنقصان میں موخررب المال شریک(ذمہ دار)نہ ہوگا۔

تمام ارباب الاموال کی رقم کومخلوط کیاجاسکتاہے،شرعاکوئی حرج نہیں،البتہ ان کالگایاہواسرمایہ اوراس پرحاصل ہونےوالےنفع کی پرسنٹیچ طےشدہ اورمعلوم ہونی چاہیے۔

ایسی صورت میں جبکہ ارباب الاموال کےاضافےسےشرکاء کاپرسنٹیج تبدیل ہوتارہے،اس کےلیےآج کل اسلامی بینکوں میں مشارکہ ومضاربہ میں نفع کی تقسیم کےلیے (per Rupee / day)(پرروپیہ پرڈے)کاجوطریقہ کاررائج ہےوہ اختیارکرناضروری ہے(جس میں ہرشریک کی رقم جتنےدن کاروبارمیں رہتی ہے،اس کےاعتبارسےمنافع کی تقسیم کی جاتی ہے)اس میں تمام شرکاءکےدرمیان نفع کی تقسیم منصفانہ طریقےسےہوسکتی ہے۔

(اس کے تفصیلی طریقہ کارسےمتعلق کسی اسلامی بینک کےشریعہ ڈیپارٹمنٹ سےراہنمائی لےلی جائے)

حوالہ جات
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام "9 /  446:
( المادة ( 1417 ) - ( إذا خلط المضارب مال المضاربة بماله فيقسم الربح الحاصل على مقدار رأسي المال أي أنه يأخذ ربح رأس ماله ويقسم مال المضاربة بينه وبين رب المال على الوجه الذي شرطاه ) إذا خلط المضارب مال المضاربة بماله حسب المادة الآنفة بناء على التفويض أو الإذن الصريح من رب المال فيقسم الربح الحاصل على مقدار رأسي المال أي أنه يأخذ ربح رأس ماله خاصة ؛ لأنه ربح ماله ويقسم ربح مال المضاربة بينه وبين رب المال على الوجه الذي شرطاه ( التتارخانية في الفصل الثاني ) مثلا لو أعطى رب المال خمسين دينارا مضاربة لآخر بنصف الربح وخلط المضارب على الوجه المبين في هذه المادة مال المضاربة المذكور بمائة دينار له وربح ثلاثين فتكون عشرون دينارا ربح رأس ماله وتكون للمضارب خاصة وتكون العشرة دنانير الباقية ربح مال المضاربة فيقتسمها مع رب المال مناصفة۔۔۔۔
رد المحتار - (ج 23 / ص 357)
( قوله والخلط بمال نفسه ) أي أو غيره كما في البحر إلا أن تكون معاملة التجار في تلك البلاد أن المضاربين يخلطون ، ولا ينهونهم فإن غلب التعارف بينهم في مثله وجب أن لا يضمن كما في التتارخانية ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

21/ربیع الثانی  1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب