021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چند سال قبل مزدوروں کی واجب شدہ تنخواہوں کی ادائیگی کا حکم
70841خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

سوال:ایک شخص نے آج سے 25 سال پہلے سعودی عرب  میں زمین اجارہ پر لی ۔ اس پر وہ سبزی کاشت کرتا تھا  اور اس بندے کے تحت  بہت سارے مزدور کام کرتے تھے ،مگر نتیجہ اس کا سارا گھاٹے میں چلاجاتا، بہت سی سبزیاں اس میں خراب ہوتیں ،اور جو رہ جاتیں وہ سستے داموں بک جاتیں ،یہاں تک کہ وہ شخص بھاگ کھڑا ہوا اور وہاں کے اپنے ساتھیوں نے لوگوں سے پیسے جمع کرکے اس کو  پاکستان بھیج دیا ،پیسے بھی اس کے پاس نہ تھے اور بہت سے مزدوروں کا مقروض ٹہرا۔ ان مزدوروں کو معلوم تھا کہ مالک بہت گھاٹے میں رہا ،مگر ان کی طرف سے معافی کا اشارہ آج تک نہ ملا ، آج وہ شخص اپنی بیٹوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ قرض ادا کرنا ہے اور وہ بھی آج کے پیسے کے اعتبار سے ۔اس وقت 1 ریال 8 روپے کا ہوتا تھا ،اور آج 1 ریال 50 روپے  کا ہے ۔

اگر اْس وقت کے اعتبار سے ادا کریں تو ایک لاکھ پچاس ہزار بنتے ہیں ،اور آج کے اعتبار سے 6 لاکھ روپے بنتے ہیں ، اور اتنی استطاعت نہیں ہے ،یہاں کچھ سوالات درج ذیل ہیں :

1۔آیا یہ قرض ہے یا نہیں ،اگر ہے تو ادائیگی کی صورت کیا ہوگی ؟

2۔ بچوں کے پاس استطاعت نہیں تو کیا کریں ؟

3۔ اگر قرض ہے  تو اس کی ادائیگی آج کے اعتبار سے ہوگی یا  اْس وقت کے اعتبار سے ؟

4۔ کیا یہ قرضہ ریالوں میں ادا کرنا ہوگا؟ یا پاکستانی کرنسی میں ادا کیا جاسکتا ہے ؟ اس لیے اکثر مزدور پاکستانی تھے ، وہ ریالوں کو پاکستان بھیجتے تھے ،جوکہ پاکستانی کرنسی میں تبدیل ہوتے تھے ۔

5۔جن کا مقروض ٹہرا ہے ،ان کا معلوم نہیں ہے کہ کہاں رہتے ہیں ،تو اس کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی ؟ ان میں سے بعض مصر میں ہیں اور وہاں رسائی ممکن نہیں ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1،2) صورت مسئولہ میں مذکورہ  شخص نے جو زمین اجارہ پر لی تھی اگر اس کا کرایہ ابھی تک ادا نہیں کیا یا جو ملازمین کام پر رکھے تھے ،ان کی تنخواہیں ابھی تک ادا نہیں کیں کی تو یہ کرایہ اور لوگوں کی  تنخواہیں اس کے ذمہ دین ہے۔   لہذا  اس شخص  کے ذمہ اپنے مال  میں سے اس دین کی ادائیگی کرنا لازم ہے ۔والد کے دین کی ادائیگی  اولاد کے ذمہ اصلا لازم  نہیں ہے ، البتہ اگر اولاد صاحب استطاعت ہے  اور وہ  اپنی طرف سے ادائیگی  کردے  تو یہ  ان کی طرف سے احسا ن ہے۔

اگر مذکورہ  شخص کے پاس فی الوقت استطاعت نہیں ہے تو انتظار کرے ۔ جب وسعت ہوجائے اس وقت اس دین کی ادائیگی  کردے  یا صاحب حق معاف کردے  ۔ان دو صورتوں کے علاوہ اس دین سے خلاصی کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے ۔ 

(3،4)اگر اْس وقت کرایہ اور لوگوں کی تنخواہیں ریال کی صورت میں  ادا کرنے کا معاہدہ ہواتھا تو اس کے ذمہ ریال ہی  ادا کرنا واجب ہیں ۔ صاحب حق  کو کسی اور کرنسی  مثلاً پاکستانی کرنسی میں اپنے  حق   کے مطالبے کا حق نہیں ہے ، ہاں اگر دونوں رضامندی سے ایسا کریں تو  ادائیگی کے دن ریال کی جو پاکستانی قیمت ہوگی ،اس اعتبار سے  ادائیگی واجب ہوگی ۔ جس وقت کرایہ اور لوگوں کی تنخواہیں ذمہ میں واجب ہوئی تھیں ،اْس وقت ریال کی جو پاکستانی قیمت تھی ، ادائیگی کے وقت اْس کا اعتبار نہیں ہوگا۔

5۔اگر قرض خواہ معلوم نہیں  تو انہیں یا ان کے ورثاء  کو  تلاش کرنے اور ان سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ ممکنہ کوشش کے باوجود ان سے رابطہ نہ ہوسکے تو یہ دین کی رقم ان کی طرف سے مساکین پر صدقہ کردے ۔ صدقہ کرنے کے بعد اگر قرض خواہ آجائیں اور وہ صدقہ کو برقرار رکھیں تو ٹھیک ہے ،ورنہ دوبارہ اپنی طرف سے انہیں قرض ادا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں قرض دار کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔

حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (5/ 315)
أخبرنا أبو بكر : محمد بن الحسن بن فورك أخبرنا عبد الله بن جعفر حدثنا يونس بن حبيب حدثنا أبو داود حدثنا حماد بن سلمة عن سماك بن حرب عن سعيد بن جبير عن ابن عمر قال : كنت أبيع الإبل بالبقيع فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو يريد أن يدخل بيت حفصة فقلت : يا رسول الله إنى أبيع الإبل بالبقيع فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« لا بأس أن تأخذها بسعر يومها ما لم تتفرقا وبينكما شىء ».
سنن أبى داود-ن (3/ 255)
حدثنا موسى بن إسماعيل ومحمد بن محبوب - المعنى واحد - قالا حدثنا حماد عن سماك بن حرب عن سعيد بن جبير عن ابن عمر قال كنت أبيع الإبل بالبقيع فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير آخذ هذه من هذه وأعطى هذه من هذه فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو فى بيت حفصة فقلت يا رسول الله رويدك أسألك إنى أبيع الإبل بالبقيع فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير آخذ هذه من هذه وأعطى هذه من هذه. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « لا بأس أن تأخذها بسعر يومها ما لم تفترقا وبينكما شىء ».
 
 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 302)
(و) الدين الصحيح (هو ما لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء) ولو حكما بفعل يلزمه سقوط الدين فيسقط دين المهر بمطاوعتها لابن الزوج للإبراء الحكمي ابن كمال
الفتاوى الهندية (2/ 291)
ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط ۔۔۔۔وإن كان الملتقط غنيا لا يصرفها إلى نفسه بل يتصدق على أجنبي أو أبويه أو ولده أو زوجته إذا كانوا فقراء كذا في الكافي
 

  طلحہ بن قاسم

   دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

11/05/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب