021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
منگنی کی شرعی حیثیت اوراس سے انکارکاحکم
70768نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

زیدنے اپنی بیٹی فاطمہ عمرکے بیٹے جنید کو بعوض پانچ لاکھ مہر منگنی کی رقم میں دی اوریہ تمام سلسلہ کئی گواہوں کی موجودگی میں ہوا ،اب زید اپنے اس فعل سے منکرہے۔

نوٹ: کوئٹہ بلوچستان کے لوگوں کے ہاں یہ عرف اوررواج ہے کہ باپ جب اپنی بیٹی کی منگنی کردے تو وہ شرعی نکاح ماناجاتاہے ۔صورتِ مسئلہ اس طرح ہے کہ زید باقاعدہ یہ اعلان کرتاہے کہ میں نے اپنی بیٹی فاطمہ جنیدکو بعوض پانچ لاکھ مہرکی دی ہے اوراس رسم کو "کوزدہ" کہاجاتاہے جس پر عمرجنیدکا والد رضامندی کا اظہارکرتاہے اوراس رشتہ کو مضبوط کرنے کےلیے باقاعدہ ایک علامت دی جاتی ہے جس کو "دسمال"یا "استن"کہاجاتاہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ فاطمہ جنیدکی ہوگئی۔اس مسئلہ کے بارے میں کوئٹہ وپشین سے تعلق رکھنے والے حضرات سے بھی رابطہ کیاجائے تاکہ اس کی صحیح رہنمائی حاصل ہوجائے اورفتنہ اورفساد لازم نہ آئے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

منگنی کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے چند افراد ایک مجلس میں بیٹھ کر یہ طے کرتے ہیں کہ فریق ثانی نے نکاح کا پیغام قبول کرلیا ہے ،طے شدہ شرائط کے مطابق آپس میں نکاح ہوگا ۔اس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اس طرح وعدہ کرنے کا عمل جائز توہے اور دیانةً فریقین پروعدہ کی پابندی  بھی لازم ہے اوربلاعذر شرعی اس منگنی کو توڑنابھی جائز نہیں،مگرشرعاً وعرفاًیہ نکاح کے حکم میں نہیں بلکہ وعدہ نکاح ہے، البتہ بعض علاقوں میں اس طرح وعدے کے ساتھ منگنی کے وقت باقاعدہ نکاح بھی کیاجاتا ہے ،اس کے لیے نکاح خواں کو بھی بلایا جاتاہے، ایجاب قبول بھی ہوتاہے اورمہر بھی مقررکیاجاتاہے اگر منگنی کے وقت اس طرح کا معاملہ کیاجائے توپھریہ شرعاً نکاح  ہوگا،اوراس سے انکاردرست نہیں ہوگا۔

مسئولہ علاقے کے جیدعلماء کرام سے معلومات لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس علاقے میں منگنی کے وقت بالعموم جو عمل کیا جاتا ہے وہ صرف وعدہ نکاح ہوتاہے اوراس کو اس علاقے کے عرف میں بھی نکاح  نہیں بلکہ وعدہ نکاح سمجھاجاتاہے، البتہ اس علاقےمیں بعض لوگ منگنی کے وقت باقاعدہ نکاح بھی کرتے ہیں مگر ایسا کم ہوتاہے اورجب ہوتاہے توسب ہی لوگ اس کو نکاح سمجھتے ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں سوال میں ذکرہ کردہ معاملہ صرف وعدہ نکاح ہے، نکاح نہیں،لہذا اس کو بطور وعدہ پورا کرنا توفریقین پردیانةً لازم ہےمگرقضاء نکاح نہ ہونے کی وجہ سے لازم نہیں،بالخصوص جب کہ اس وعدہ کو پورانہ کرنے کا کوئی شرعی عذرہو تو اس سے انکارکی گنجائش موجود ہے۔تاہم شدیدشرعی عذر کے بغیر منگنی ختم کرنا باعثِ گناہ ہے، اگرچہ منگنی ختم ہوجائے گی ،البتہ یہ واضح رہے کہ لڑکے اور لڑکی کی اجازت کے بغیر صرف گھر والوں کو منگنی ختم کرنے کی اجازت نہیں ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 11)
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح.اھ
الفقه الإسلامي وأدلته - (ج 9 / ص 4)
الخطبة مجرد وعد بالزواج، وليست زواجاً  ، فإن الزواج لا يتم إلا بانعقاد العقد المعروف، فيظل كل من الخاطبين أجنبياً عن الآخر، ولا يحل له الاطلاع إلا على المقدار المباح شرعاً وهو الوجه والكفان، كما سيأتي. نص قانون الأحوال الشخصية السوري (م2) على ما يلي: الخطبة والوعد بالزواج وقراءة الفاتحة وقبض المهر وقبول الهدية، لا تكون زواجاً.
قال فی اللمعات شرح مشکوة فی  باب الوعد :
قیل الخلف فی الوعد بغیر مانع حرام وھو المراد ھھنا وکان الوفاء بالوعد مامورا بہ فی الشرائع السابقة ایضا . اھ
وفی سنن ابن ماجة للقزويني - (ج 2 / ص 172)
عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال : يا رسول الله ! إن سيدا زوجنى أمته ،وهو يريد أن يفرق بينى وبينها ، قال ، فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فقال " يا أيها الناس ! ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق " .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

6/5/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب