021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کی تقسیم
71005میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال: محمد عادل صدیقی صاحب کے پسماندگان میں سے ایک بیوہ، والدہ، ایک بہن غیر شادی شدہ، تین شادی شدہ اور ایک بھائی شامل ہے۔ مرحوم کے اثاثہ جات، جائیداد اور کاروبار کے سلسلے میں لوگوں کو دی گئی رقم کی تقسیم شرعی طریقہ کار کے مطابق بتادیں؟ ان کی ذاتی استعمال کی چیزیں کس طرح تقسیم کریں جو امانتاً کسی کے پاس ہوں؟  ان کے گھر میں جو چیزیں ہیں وہ کس طرح تقسیم کریں؟

مرحوم نے دیگر لوگوں کو جو پیسے یا پراپرٹی دی ہوئی تھی اور کسی کو نامنیٹ (نامزد) بھی نہیں کیاتھا، تو وہ لوگ ان چیزوں کو کس طرح واپس کریں؟ وراثت کے حساب سے، کسی ایک شخص کو یا نہ دیں؟

ان کا کاروبار جو ان کے پیسوں سے چل رہا ہے، اس کے معاملات کو ان  کی بہن دیکھتی ہیں، اس کی تقسیم کا طریقہ؟  دیگر صورت میں اگر بہن اس کاروبار میں کسی کو شراکت نہ دے تو اس صورت میں شرعی طریقہ کار؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم کا سارا مال وراثت ( جس میں جملہ اثاثہ جات، نقدی، ذاتی استعمال کی چیزیں، کاروبار میں لگی ہوئی رقوم،  دیگر لوگوں کے پاس رکھی ہوئی امانتیں، لوگوں کو دیے گئے قرضے اور یگر ہر قسم کی اموال کو) اکٹھا کرکے ، ان کا حساب لگا کر شرعی حصص کے مطابق  تقسیم کیا جائے۔

مرحوم نے دیگر لوگوں کو جو پیسے یا پراپرٹی دی ہوئی تھی، ان لوگوں نے بہر صورت وہ رقم اور پراپرٹی ورثہ کو واپس کرنی ہے، اس میں سب ورثہ کا حق ہے۔ لیکن مرحوم نے اپنے ورثاء میں سے کسی کو منتخب نہیں کیا تھا کہ وہ رقم اور پراپرٹی کن کو واپس کی جائے (جبکہ سائل کے زبانی بیان کے مطابق اب یہ اندیشہ ہے کہ اگر وہ لوگ کسی ایک وارث کے سپرد کریں گے تو وہی وارث اس مال پر خود اکیلے قبضہ کر لے گا)۔ اس کا حل یہ ہے کہ سب ورثاء آپس کی رضامندی سے کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جس پر سب کا اتفاق ہو۔ مثلا کسی معتمد شخص کو منتخب کیا جائے، مال اس کے حوالے کیا جائے پھر وہ معتمد شخص وراثت کے حصص کے حساب سے وہ مال تقسیم کر کے ہر وارث کو اپنا اپنا حصہ الگ دے دیں۔

مرحوم کے پیسوں سے جو کاروبار چل رہا ہے، جس کے معاملات مرحوم کی بہن دیکھتی ہیں، وہ کاروبار اکیلے اس بہن کی ملکیت نہیں ہے، بلکہ اس میں بھی سب ورثاء کا حصہ ہے ۔ لہذا اس کو بھی دیگر اموال کے ساتھ ملا کر حساب لگایا جائے اور پھر شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کی جائے۔

اگر مذکورہ بہن اس کاروبار میں کسی کو شراکت نہ دے، تو سب ورثاء کی رضامندی کے ساتھ اس طرح صلح کرنا بھی جائز ہے کہ اس کاروبار کی مالیت معلوم کی جائے، پھر اس کاروبار سمیت کل مال وراثت کا بھی حساب لگایا جائے۔ پھر کل مال وراثت میں سے مذکورہ بہن کو جتنا حصہ مل رہا ہے اس حصہ اور اس کاروبار کی مالیت میں تناسب دیکھا جائے۔ اگر نسبت برابر ہے تو وہی کاروبار بہن کا وراثتی حصہ شمار کیا جائے  بقیہ میراث میں سے اس کو مزید حصہ نہ دیا جائے۔ اوراگر بہن کو وراثت میں ملنے والا حصہ زیادہ ہو تو جتنا حصہ کاروبار کی مالیت سے زیادہ  ہے وہ بھی اس کو دیا جائے تاکہ اس کا وراثتی حصہ مکمل ہو جائے۔ اور اگر بہن کا حصہ کاروبار کی کل مالیت سے کم ہو تو بہن سے اس حساب سے اضافہ وصول کر کے باقی ورثاء کا حصہ مکمل کیا جائے۔

شرعی طریقہ کار کے مطابق وراثت کا تقسیم

تجہیز وتکفین کے خرچ، قرض کی ادائیگی اور وصیت پوری کرنے کے بعد جو ترکہ بچ  جائے اسے بہتر (72) برابر حصوں میں منقسم کر کے درج ذیل حساب سے تقسیم کی جائے:

ورثہ

عددی حصہ

فیصدی حصہ

والدہ

12

16.6666   فیصد

زوجہ

18

25.0000   فیصد

بھائی

14

19.4444   فیصد

بہن

7

9.7222   فیصد

بہن

7

9.7222   فیصد

بہن

7

9.7222   فیصد

بہن

7

9.7222   فیصد

ٹوٹل

72

100     فیصد

حوالہ جات
-

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

10 جمادی الاول 1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب