021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصے کی حالت میں جنون کی سی کیفیت میں بیوی کو تین طلاقیں دینا
70764طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

میرا مسئلہ طلاق کے حوالے سے ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ میری اپنی بیوی سے شدید لڑائی ہوئی،جس کے دوران میں نے بہت شدید غصے کی حالت میں جنون کی سی کیفیت میں اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں،میرے الفاظ یہ تھے:

میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔

اب آپ میری راہنمائی فرمائیں کہ اس میں آپ مفتیانِ کرام کی کیا رائے ہے،جناب عالی میرا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا،بس غصہ اور جنون کی کیفیت میں یہ الفاظ میرے منہ سے نکل گئے،آپ سے جلد سے جلد اس کے جواب کی توقع کرتا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات مد نظر رہے کہ طلاق عام طور پر غصے ہی کی حالت میں دی جاتی ہے اور عام غصے کی حالت میں دی جانے والی طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس لیے اگر آپ نے عام غصے کی حالت میں طلاق کے مذکورہ الفاظ بیوی سے بولے ہیں تو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور اس کے بعد اب موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں۔

تاہم اگر آپ کا غصہ ایسا ہو کہ غصے کی حالت میں آپ حواس باختہ ہوجاتے ہوں اور آپ پر مدہوشی کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کیا بول رہے ہیں اور کیا کررہے ہیں تو پھر طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کے حوالے تفصیل درج ذیل ہے:

اگر غصے کی وقت آپ کی مذکورہ کیفیت لوگوں میں مشہور ہے اورآپ حلفیہ بیان دیں کہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت آپ پر یہی کیفیت طاری تھی تو طلاقیں واقع نہیں ہوئیں اور اگر غصے کی وقت آپ کی مدہوشی کی یہ کیفیت لوگوں میں معروف نہ ہو تو پھر اگر دو معتبر مرد یا ایک معتبر مرد اور دو عورتیں یہ شہادت دیں کہ بوقت طلاق آپ پر یہ کیفیت طاری  تھی تو بھی طلاق نہیں ہوگی۔

لیکن اگر غصے کے وقت آپ کی یہ کیفیت لوگوں میں معروف نہیں اور نہ آپ کے پاس اس پر گواہ موجود ہیں تو پھر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں ہے۔(احسن الفتاوی:5/162)

حوالہ جات
" رد المحتار" (3/ 244):
"وسئل نظما فيمن طلق زوجته ثلاثا في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظما أيضا بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان. اهـ".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(1/ 38):
"(سئل) في رجل حصل له دهش زال به عقله وصار لا شعور له لأمر عرض له من ذهاب ماله وقتل ابن خاله فقال في هذه الحالة يا رب أنت تشهد على أني طلقت فلانة بنت فلان يعني زوجته المخصوصة بالثلاث على أربع مذاهب المسلمين كلما حلت تحرم فهل لا يقع طلاقه؟
(الجواب) : الدهش هو ذهاب العقل من ذهل أو وله وقد صرح في التنوير والتتارخانية وغيرهما بعدم وقوع طلاق المدهوش فعلى هذا حيث حصل للرجل دهش زال به عقله وصار لا شعور له لا يقع طلاقه والقول قوله بيمينه إن عرف منه الدهش وإن لم يعرف منه لا يقبل قوله قضاء إلا ببينة كما صرح بذلك علماء الحنفية رحمهم الله تعالى".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

03/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب