021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موبائل کال کے ذریعے نکاح کا حکم
70917نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

میں پانچ سال پہلے یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، وہاں ایک لڑکی سے دوستی ہوئی۔ ایک دن موبائل کال پر ہم نے نکاح کیا، میرے ساتھ دو لڑکے بطور گواہ تھے۔ میں نے لڑکی سے کہا میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیا تمہیں قبول ہے، اس نے کہا قبول ہے۔ میرا دین سے زیادہ تعلق نہیں تھا، ایک مفتی صاحب سے پوچھا جو جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل تھے، انہوں نے کہا کہ نکاح ہو گیا ہے۔ پھر ہم 5 سال یونیورسٹی میں میاں بیوی کی طرح رہے، جنسی تعلقات بھی ہوگئے۔ اب تین ماہ پہلے لڑکی کو کسی نے کہا نکاح نہیں ہوا، وہ لڑکی مجھ سے بد ظن ہوگئی اور مجھے چھوڑ دیا۔ وہ کسی مستند دارالافتاء کا فتوی مانگتی ہے کہ ہمارا نکاح درست تھا۔ وہ لڑکی سید ذات کی ہے، اور میں میواتی ہوں۔ اور گواہ لڑکے لڑکی کو جانتے ہیں اور لڑکا لڑکی گواہوں کو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ نکاح صحیح نہیں ہے، جس کی درج ذیل دو وجھیں ہیں:

  1. بہت سے اہل علم کے ہاں موبائل کال کے ذریعے نکاح نہیں ہوتا، کیونکہ نکاح میں ایجاب وقبول کے لیے مجلس کا ایک ہونا ضروری ہے ، جبکہ یہاں مجلس ایک نہیں۔
  2. میواتی اور سید کے درمیان کفو (برابری) نہیں پائی جاتی ہے۔ جہاں کفو (برابری)نہ پائی جائے،وہاں اولیاء (سرپرستوں) کی اجازت اور رضامندی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

نکاح کے بارے میں شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اس کو چھپ چھپا کر نہ کیا جائے بلکہ اعلانیہ اور زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح علی الاعلان مسجد میں کیا کرو۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ ولی (سرپرست) کی رضامندی اور دو عادل گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ ایک اور روایت میں فرمایا کہ زنا اور نکاح میں فرق یہی ہے کہ نکاح سر عام ہوتا ہے اور زنا چھپ کر۔

بہتر طریقہ یہ ہے کہ فریقین باقاعدہ نکاح کی مجلس منعقد کر کے سرپرستوں کی موجودگی میں ایک ہی مجلس میں ایجاب وقبول کریں، یا لڑکا اور لڑکی میں سے کوئی ایک فریق کسی شخص کو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کرے، پھر وہ وکیل گواہوں کی موجودگی میں دوسرے فریق کے ساتھ ایجاب وقبول کرے۔ اس طریقے سے نکاح کرنے میں دنیا کا سکون بھی ہے اور آخرت کا نفع بھی۔

حوالہ جات
سنن الترمذي ت شاكر (3/ 390)
عن عائشة قالت: [ص:391] قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أعلنوا هذا النكاح، واجعلوه في المساجد، واضربوا عليه بالدفوف»: «هذا حديث غريب حسن في هذا الباب،»
مسند أبي داود الطيالسي (3/ 72)
عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا نكاح إلا بولي، وأيما امرأة نكحت بغير ولي فنكاحها باطل باطل باطل، فإن لم يكن لها ولي فالسلطان ولي من لا ولي له»
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 203)
عن الحسن، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل نكاح إلا بولي وصداق وشاهدي عدل "، قال الشافعي رحمه الله: " وهذا وإن كان منقطعا دون النبي صلى الله عليه وسلم فإن أكثر أهل العلم يقول به، ويقول: الفرق بين النكاح والسفاح الشهود " قال المزني ورواه غير الشافعي رحمه الله عن الحسن، عن عمران بن حصين عن النبي صلى الله عليه وسلم
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 56)
(ويفتى) في غير الكفء  (بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 233)
ولو أرسل إليها رسولا وكتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز ذلك لاتحاد المجلس من حيث المعنى؛ لأن كلام الرسول كلام المرسل؛ لأنه ينقل عبارة المرسل.
وكذا الكتاب بمنزلة الخطاب من الكاتب، فكان سماع قول الرسول وقراءة الكتاب سماع قول المرسل وكلام الكاتب معنى.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

12 جمادی الاول 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب