021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادی کی زندگی میں جائیداد کی تقسیم
70853ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

مجھے اس سلسلے میں فتوی درکار ہے کہ ہماری دادی حیات ہیں،ان کا ایک گھر تیس لاکھ میں فروخت ہوا ہے،اس گھر کی وراثت کے حصہ دار دادی کے علاوہ دادی کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں،ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا ہے،لیکن اس کی اولاد حیات ہے۔

ہم نے اس رقم سے ایک دوسرا گھر خرید لیا ہے،آپ سے التماس ہے کہ ہماری راہنمائی فرمائیں کہ ہم نے جو گھر فروخت کیا ہے،اس کے حصے دینے کی فی الحال ہمیں استطاعت نہیں،تو کیا ہم سارے بہن بھائیوں کی رضامندی سے انہیں قسطوں پر ادائیگی کرسکتے ہیں؟

اگر کرسکتے ہیں تو ہمیں دادی،بیٹوں اور بیٹیوں کا حساب لگاکر بتادیجئے کہ کس کو کتنا حصہ دینا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرنے سے پہلے ہر شخص  اپنی تمام جائیداد اور دیگر املاک کا تنہا مالک ہے اور اس میں تصرف کا اسے مکمل اختیار حاصل ہے، اس میں بچوں اور دیگر وارثوں کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی کوئی اولاد اُس شخص سے اْس کی زندگی میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتی ہے، کیونکہ میراث کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعد سے ہے،لہذا جو مکان خریدا گیا ہے وہ بھی آپ کی دادای کی ملک ہے اور جب تک وہ زندہ ہیں ورثہ میں سے کوئی بھی ان سے اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

تاہم اگر وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی بقیہ زندگی کیلئے جو کچھ مال رکھنا چاہے رکھ لے، تاکہ بعد میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے، اس کے بعد جو کچھ بچے اس میں افضل و بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو چاہے بیٹا ہو یا بیٹی برابر دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ کے محض نقصان پہنچانے کی نیت سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا ناجائز ہے۔

تاہم اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

اورچونکہ اس طرح زندگی  میں جائیداد کی تقسیم  شرعاہبہ(یعنی  گفٹ) ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ دادی اولاد میں سے جس کو جو مال دے اگروہ قابلِ تقسیم ہے تو اسےباقاعدہ تقسیم کرکے اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر تقسیم کئے بغیر اور قبضہ دیئے بغیرصرف زبانی ہبہ کیا تو ایسا ہبہ تام نہیں ہوگا اور دادی کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

چونکہ دادی کے زندہ ہوتے ہوئے ان کے مال میں ورثہ کا کوئی حق نہیں ہے،اس لیے فی الحال ورثہ کے حصے طے نہیں کئے جاسکتے،البتہ اگر دادی مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اپنی جائیداد ورثہ میں تقسیم کردیں گی تو پھر وہ جسے جتنا حصے دیں گی خریدے گئے گھر کی قیمت میں سے اتنا حصہ اسے دینا لازم ہوگا۔

حوالہ جات
"درر الحكام شرح مجلة الأحكام " (3 / 210):
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير . انظر المادة ( 1197 ) . كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له : أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف ".
"رد المحتار" (4 / 444(:
 " وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى".
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب