021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میزان بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا
70797جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

میرا ایک دوست ہے،وہ میزان بینک سے گاڑی قسطوں پر لینا چاہتا ہے،لیکن اس کی قیمت مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ ہے،تو کیا یہ معاملہ جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ بینک سے خریدیں یا مارکیٹ سے،ادھار پر خریدی جانے والی چیز کی قیمت عام طور پر نقد قیمت سے زیادہ ہوتی ہے،لیکن شرعی لحاظ سے اس میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ ادھار کی صورت میں قیمت کی زیادتی وقت کے عوض نہیں،بلکہ فروخت کی جانے والی چیز ہی کا عوض قرار پاتی ہے،اس لیے یہ سود کے حکم میں نہیں۔

چونکہ میزان بینک مستندعلماء کی زیرِنگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہا ہے،اس لیے آپ کے دوست کے لیے میزان بینک سے گاڑی لینا جائز ہے۔

حوالہ جات
"المبسوط للسرخسي" (13/ 7):
"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

07/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب