021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
Shariah Ruling of distribution of virasat
71062میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

I have a question about the distribution of virasat. My father passed away in 2004. His total assets were 1 car, 1 shop and 1 house. The house is in joint name with my mother. The house and shop both have tenants and after my father passed away, the rent was used for the household expenses including paying bills, education, groceries and also used for marrying sister. The car was sold and money was used for household expense also.

Total heirs of my father are:

My mother, 1 son (myself) and 3 daughters (my sisters).

Please advise how we should distribute the virasat. The rent that was used from the house and shop and money from selling the car will need to be re-imbursed also?

You can respond in either English or Urdu, jazakallah.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ   مکان اگر آپ کے والد نے اپنے پیسوں سے خریدا تھا تو وہ ان کی ملکیت ہے ۔ کاغذات میں آپ کی والدہ کا نام بھی ساتھ  لکھوادینے سے وہ ان کے ساتھ مکان میں شریک نہیں ہوں گیں ۔ لہذا مذکورہ مکان آپ کے والد کے تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ اسی طرح اپنےوالد کی وفات کے بعد سے گھر اور دکان کا  کرایہ اور فروخت کردہ گاڑی کی رقم  آپ لوگ  جو گھریلو ضروریات  اور بہنوں کی شادی میں استعمال کرتے رہے  ہیں تو اگر تمام شرکاء نے حاصل ہونے والی رقوم  کو باہمی رضامندی سے ان مصارف میں استعمال کیا تھا تو اب وراثت کی تقسیم کے وقت ان تمام رقوم کا حساب لگانا ضروری نہیں ہے ،بلکہ اِس وقت  جو موجودہ اثاثے والد صاحب کی ملکیت ہیں انہیں ذیل میں دی گئی تفصیل کے مطابق تقسیم کرسکتے ہیں ۔

 لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے والد مرحوم  نے بوقت انتقال اپنی ملکیت  میں جوکچھ منقولہ (Movable)  و غیر منقولہ(Immovable)  سازو سامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے ۔ اس میں سے پہلے تجہیز و تکفین کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،اگر وہ اخراجات کسی نے اپنی طرف سے ادا کریے تھے تو انہیں نکالنے کی ضرورت نہیں۔  پھر  اگر مرحوم کے ذمے کچھ قرض ہوتو وہ ادا کیا جائے۔پھر  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو  ایک تہائی تک اس کے مطابق عمل کیاجائے۔اس کے بعد جو ترکہ بچے اس کے  کل 40 حصے کرکے مرحوم کی اہلیہ کو 5، بیٹے کو 14 اور ہر بیٹی کو 7 حصے  دیے جائیں ۔

حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 48)
حصة أحد الشريكين في حكم الوديعة في يد الآخر أي أن حصة أحدهما في المال المشترك أمانة في يد الشريك الآخر (رد المحتار) . قيل (في حكم الوديعة) ولم يقل وديعة لأن الوديعة كما عرفت في المادة (763) هي المال الذي يودع لآخر للحفظ. أما المال المشترك فحيث لم يودع عند الشريك للحفظ فلم يكن في الحقيقة وديعة إلا أن هذه الحصة أمانة عند أحدهما
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 26)
 تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما۔
الفتاوى الهندية (6/ 447)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف كذا في المحيط ۔۔۔۔ثم بالدين ۔۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين إلا أن تجيز الورثة أكثر من الثلث ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

25جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب