021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اختیاری پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں ملنے والی اضافی رقم کا حکم
70876جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میرا نام محمد رفیق ،عمر 50 سال ہے ۔ مجھے(سرکاری )  ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد پراویڈنٹ فنڈکی مد میں  کچھ رقم ملی ہے ،جو میں نے   دوران ِ ملازمت  اپنے محکمے میں جمع کروائی تھی ،لیکن اب مجھے یہ رقم ملی ہے ۔اس میں 12 لاکھ روپے سود والے ہیں ۔ (تنقیح:ادارہ جتنی رقم کاٹتا تھا ،سائل نے از خود اس سے زیادہ رقم  اپنے اختیار سے کٹوائی تھی ۔ جس پر 12 لاکھ روپے اضافی ملے ہیں )

اب میں اس سود والی رقم سے خود کو آزاد کرنا چاہتا ہوں ،تو سوال یہ ہے کہ

1۔ کیا میں یہ رقم اپنی ساس ،بھائی اور بھانجی کو انفرادی یا سب کو مشترکہ طور پر نقد یا اقساط کی صورت میں دے سکتا ہوں ؟

2۔کیا میں گواہوں کی موجودگی میں ذبانی کلامی (رقم ان کو حوالے کیے بغیر )ان سے یہ طے کرسکتا ہوں کہ یہ رقم  میرے پاس ان کا ادھار ہے ،جو میں رفتہ رفتہ ان کو واپس کردونگا۔

3۔ اگر میں یہ ساری رقم ان کے حوالے کرکے مالک بنادوں اور پھر بعد میں ان سے کہہ دوں کہ آپ کے پاس جو رقم ہے وہ مجھے یا میرے گھر والوں میں سے کسی کو ادھار دیدیں ،پھر بعد میں یہ رقم ان کے حوالے کردونگا تو ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟

4۔ اسی طرح جن کو یہ رقم دی جارہی ہے اگر وہ کسی اور کودیں یا اس رقم سے کوئی زمین وغیرہ خریدلیں تو ہم ان دوسرے لوگوں سے وہ رقم یا وہ زمین دوبارہ خریدسکتے ہیں ؟

یہ رقم دینے والوں کو غیر مشروط طور پر دی جائے گی ،اور وہ اس کو کسی کو دینے ،زمین خریدنے اور رقم دینے والے کو دوبارہ قرض وغیرہ دینے کے پابند نہیں ہوں گے ،بلکہ انہیں اس رقم پر پورا اختیار حاصل ہوگا۔ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 (1تا4) اختیاری پراویڈنٹ فنڈ  جس میں ملازم کے اختیار سے  رقم کاٹی  جاتی ہے ،وہ رقم اور اس پر محکمہ ہر ماہ جو اضافہ اپنی طرف سے کرتا ہے، یہ دونوں قسم کی رقمیں لینا جائز ہے بشرطیکہ ادارہ کی اصل  ملازمت حلال  کام کی ہو۔ اس کے لینے میں کوئی شبہہ  نہیں ،البتّہ اس صورت میں سود کے نام سےجوزائد تیسری رقم دی جاتی ہے، اْس کو لینے کی  گرچہ فی نفسہ گنجائش ہے لیکن  اُس کے لینے  سے اجتناب کرناچاہیے ، کیونکہ علماء کی تحقیق کے مطابق یہ بعینہٖ سود اگر چہ نہیں ہےلیکن سود کے ساتھ اس کی مشابہت ضرورہے اور یہ سود خوری کا ذریعہ بن سکتا ہے،اس لیے یہ رقم  اگر وصول کرلی ہے تو اس کو صدقہ کردیا جائے  ۔

جن کو یہ رقم صدقہ کی جائے ان کا مستحق ِ زکوۃ  ہونا ضروری نہیں ہے ،بلکہ مالدار رشتہ داروں کو بھی یہ رقم صدقہ کے طور پر دی جاسکتی ہے ۔  اس سے اگر وہ کوئی چیز مثلا گھر وغیرہ خریدلیں تو بعد میں وہ گھر آپ خود بھی خریدسکتے ہیں ، اسی طرح ان کو رقم   کا مالک بنالینے  کے بعد ان سے قرض بھی لیا جاسکتا ہے ،بشرطیکہ وہ اپنی خوشی سے دیں ۔

حوالہ جات
البحر الرائق (8/ 5)
قال رحمه الله ( والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه ) يعني الأجرة لا تملك بنفس العقد سواء كانت عينا أو دينا وإنما تملك بالتعجيل أو بشرطه أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من الاستيفاء بتسليم العين المستأجرة في المدة اه
عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 478)
ولو أن رجلاً أهدى إليه إنسان يكتسب من ربا أو رجل ظالم يأخذ أموال الناس أو اضافة فإن كان غالب ماله من حرام فلا ينبغي له أن يقبل ولا يأكل من طعامه ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه أو نحو ذلك. فإن كان غالب ماله حلال فلا بأس بأن يقبل هديته ويأكل منه ما لم يتبين عنده أنه من حرام.
البحر الرائق ، دارالكتاب الاسلامي - (6 / 129)
قوله (وصح التصرف في الثمن قبل قبضه) ....وأشار المؤلف بالثمن إلى كل دين فيجوز التصرف في الديون كلها قبل قبضها من المهر، والإجارة، وضمان المتلفات سوى الصرف والسلم كما قدمناه، وأما التصرف في الموروث، والموصى به قبل القبض فقدمنا جوازه.

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

12/05/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب