021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایفیلئیٹ مارکیٹنگ(Affiliate Marketing) کا حکم
69980جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

:Affiliate Marketing کے بارے میں رہنمائی درکار ہے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ؟اس میں ایک  طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس میں خریدار آپ کے دیے ہوئے لنک سے کسی آن لائن اسٹور پر جاتا ہے تو اپنی مطلوبہ چیز کے علاوہ کچھ اور بھی خریدے تو اسکا بھی کمیشن ملتا ہے ۔ کیا یہ جائز ہے ؟

اسی طرح بعض خریدار آپ کے لنک سے Amazon وغیرہ پر جاکر صرف کلک کرتے ہیں ، خریداری نہیں کرتے تو کلک سے بھی کمائی ہوتی ہے ، یعنی کمیشن ملتا ہے تو کیا یہ جائز ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ Affiliate Market کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جتنی بھی ای-کامرس ویب سائٹس ہیں ، یہ اپنا ایک ایفیلیٹ پروگرام متعارف کرواتی ہیں ۔ اس پروگرام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس پروگرام کا ممبر بنیں اور ان کی پروڈکٹ کی تشہیر کریں ۔

ممبر بننے کےلیے ان کی ویب سائٹس پر موجود ایک آن لائن فارم کو پُر کرنا ہوتا ہے ، جس کی کوئی فیس نہیں ہوتی ۔ نیز پروڈکٹ کی تشہیر کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ اس ایفیلیٹ پروگرام کے ممبر بن جاتے ہیں ، وہ ان ویب سائٹس پر موجو بیچی جانے والی اشیاء  میں سے کسی چیز کا لنک تشکیل (link Generate) دیتے ہیں ۔ اور یہ لنک  اپنے  متعلقین کو فیس بک یا واٹس ایپ وغیرہ سے بھیجتے ہیں ۔ لہذا جو لوگ اس لنک کے ذریعے سے متعلقہ ای – کامرس ویب سائٹس پر جاکر متعلقہ چیز یا  کوئی اورچیز خریدیں گے یا کوئی چیز نہ خریدیں ، بلکہ صرف ویب سائٹس پرکلک کریں  تو اس لنک تشکیل دینے والے کو اس چیز کی قیمت کا ایک مخصوص فیصد بطور کمیشن ملتا ہے ۔

Affiliate Marketکا مذکورہ بالا طریقہ کار جائزہے ۔ اور اس میں لنک تشکیل دینے والے کی حیثیت اجیر کی ہے یعنی اس کا کام ویب سائٹس پر بیچے جانے والی چیزوں کا لنک تشکیل دے کر ، لوگوں کو اس چیز کی خریداری کی طرف راغب کرنا اور مخصوص ویب سائٹس تک لے کر جانا ہے ، لہذا اس صورت میں لنک تشکیل دینے والے کو جو کمیشن ملے گا ،وہ اس کے لیے لینا جائز ہے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جتنا کمیشن ملنا ہو، وہ پہلے سے طے ہو۔اس میں کسی قسم کی جہالت نہ ہو۔  

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
 (قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 231)
 إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري لأنه العاقد حقيقة وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه أو من المشتري أخذت منه أو من الاثنين أخذت منهما  أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبه فالبيع المذكور موقوف ويصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال وليس للدلال أجرة في ذلك لأنه عمل من غير أمر فيكون متبرعا۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

24/01/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب