021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت میں عدم حاضری پرعدالتی خلع کا حکم
71133طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میرا نام ۔۔۔۔ ہے آٹھ سال پہلے میری شادی  ۔۔۔۔ سے ہوئی ۔شادی کے شروع دن سے لیکر اُس نے

گھر کا خرچ اور ذمہ داری نہیں اُٹھائی جیسا کہ اس کا حق تھا ۔ اللہ پاک کے کرم سے ہمارا ایک بیٹا ہوا لیکن وہ پھر بھی

نہیں بدلا۔گھر کا خرچ اور کرایہ کچھ بھی ادا نہیں کرتا تھا ،دو ماہ کام کرلیا اور دوماہ آرام سے گھر بیٹھ جاتا ،میں خود محنت

کرتی رہی۔پھر بیٹے کے بعد اللہ پاک نے ہمیں بیٹی عطا کی۔بیٹی کے بعد تو اس نے بالکل ہی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ

لیا ، مالک مکان باہر دروازے پر آکر بولتے کہ کرایہ دو ۔مجھے یہ بھی پتا چلا کہ میری غیر موجودگی میں عورتیں گھر

آئیں  ،پر میں خاموش رہی کہ بات زیادہ  نہ بڑھ جائے۔میرے بھائی نے کرایہ بھیجا میں وہ ادا کیا ، میری بہن نے بل

بھیجے وہ ادا کئے ،پھر میرے بھائی نے کہا یہاں آجاؤہم آگئے لیکن اب تین سال سے نہ کوئی خرچ نہ کرایہ نہ بچوں کی

فیس ،بہت سمجھایا لیکن نہیں مانا ۔اس کا کہنا تھا کہ تم خلع لے لو میں نے کہا کہ طلاق دیدو لیکن اس کا  اصرارتھا کہ خلع لے لو۔ کیس کرنے کے بعد اس کو باربار فون کرکے بتایا کہ عدالت کے یہ تاریخ ہے لیکن وہ نہیں پہنچا ۔ہمارے وکیل سےملا لیکن عدالت میں پیش نہیں ہوا ۔عدالت نے خلع دے دی ۔اب اس خلع کا دینی رو سے کیا حکم ہے؟

اس کو بہت سمجھایا لیکن وہ کسی بات پر نہیں آیا ۔اس کا مقصد تھا کہ میں گھر اور بچوں کا خرچ اُٹھاتی رہوں اور وہ جوچاہے مرضی کرتا رہے ، آیا اب ہماری خلع ہوجاتی ہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عدالتی فیصلہ جو آپ نے ارسال فرمایا ہے ، اس میں اگرچہ  آپ کی طرف سے نان ونفقہ ،مارپیٹ سمیت دیگر

باتوں کو بنیاد بنا کر فسخ ِ نکاح کا دعوی کیا گیا ہےلیکن عدالت نے اپنے فیصلے کی بنیاد نان و نفقہ کو نظراندازکر کے

شوہر کی طرف سے پہنچائی جانی والی اذیت اور بیوی کے دل میں شوہر کے لیے پیدا ہونے والی نفرت کو بنایاہے۔

یہ دونوں باتیں  فسخ ِ نکاح کے لیے کافی نہیں ہیں کیونکہ شرعی ثبوت سے بیوی نے اپنا دعوی ثابت نہیں کیااور

خلع یکطرفہ نہیں ہوسکتا اس کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے ،لہذا شرعاٍ ً یہ فیصلہ درست نہیں اورخلع واقع

نہیں ہوئی۔

ا گر شوہر کو عدالت میں بلایا جارہا ہے اور شوہر مسلسل پیغامات ملنے کے باوجود حاضر نہیں ہورہاتو ایسی    صورت میں  مذکورہ عدالت سے اوپر کی عدالت میں صرف نان و نفقہ کی بنیاد پر فسخ نکاح کا دعوی دائر کریں اورعدالت میں نان و نفقہ کی تنگی کو  گواہوں سے ثابت کریں اور عدالت بھی  نان و نفقہ کے حوالےسے شوہر کو نوٹس بھیجے اگر شوہر حاٖضر ہوکر عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کردیتا ہے تو مقصد حاصل ہوگیااور اگرمطمئن نہیں کرتا یا حاضر ہی نہیں ہوتا اور نان و نفقہ کا دعوی گواہوں سے ثابت ہوجاتا ہے تو عدالت  نان ونفقہ کی  بنیادپر فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کرسکتی ہے۔

نیزاگر یہ بات عدالت میں گواہوں کے ذریعے ثابت ہوجائے کہ شوہر استطاعت کے باوجود نان ونفقہ نہیں اٹھاتا اور عدالت نے بھی اس کی مکمل تحقیق کی ہو لیکن فیصلہ میں نان ونفقہ کو بنیاد نہ بنایا ہو تو ایسی  صورت میں بھی فسخ ِ نکاح کی ڈگری معتبر ہوگی ۔

اور اگر اوپر والی عدالت میں دعوی دائر کرنا مشکل ہو تو آپ علاقے کے چار پانچ  آدمیوں (جماعت المسلمین) کو فیصلہ کے لیے حکم (ثالثی)  مقرر کرلیں، جن میں کم از کم دو آدمی عالم ہوں، جو نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل سے واقف ہوں، آپ  ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کریں اور اس مجلس میں گواہوں کے ذریعہ ثابت کردیں کہ  شوہر نان و نفقہ نہیں اٹھاتا،  يہ حضرات  اس گواہی کی بنیاد پر اتفاقِ رائے سے  نکاح فسخ کر دیں تو نکاح ختم ہو جائے گا، اس کے بعد اِس فیصلہ کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو  جائے گی اور  عدت مکمل ہونے  کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 441)
(قوله: وشرطه كالطلاق) وهو أهلية الزوج وكون المرأة محلا للطلاق منجزا، أو معلقا على
الملك. وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق
بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم
يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 215)
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ، ولا يستحق
العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال : خالعتك ولم يذكر العوض ونوى
الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها ، سواء قبلت أو لم تقبل ؛ لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى
القبولوحضرة السلطان ليست بشرط لجواز الخلع عند عامة العلماء فيجوز عند غير السلطان\
وروي عنالحسن وابن سيرين أنه لا يجوز إلا عند السلطان ، والصحيح قول العامة لما روي أن
عمر وعثمان وعبد الله بن عمر رضي الله عنهم جوزوا الخلع بدون السلطان ، ولأن النكاح جائز
عند غيرالسلطان فكذا الخلع .
"شرح مختصر خليل للخرشي" (4/ 198) دار الفكر للطباعة ، بيروت:
"وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم
أو لكونه غير عدل ".
 
المغني لابن قدامة (10/ 97)
فإن امتنع من الحضور، أو توارى، فظاهر كلام أحمد، جواز القضاء عليه؛ لماذكرنا عنه في رواية
حرب.وروى عنه أبو طالب، في رجل وجد غلامه عند رجل، فأقام البينة أنه غلامه، فقال الذي
عندهالغلام: أودعني هذارجل. فقال أحمد: أهل المدينة يقضون على الغائب، يقولون: إنه لهذا
الذي أقام البينة.
وهو مذهب حسن، وأهل البصرة يقضون على غائب، يسمونه الإعذار. وهو إذا ادعى على
رجل ألفا، وأقام البينة، فاختفى المدعى عليه، يرسل إلى بابه، فينادي الرسول ثلاثا، فإن جاء،
وإلا قدأعذروا إليه.
فهذا يقوي قول أهل المدينة، وهو معنى حسن. وقد ذكر الشريف أبو جعفر، وأبو الخطاب، أنه
يقضي على الغائب الممتنع. وهو قول الشافعي؛ لأنه تعذر حضوره وسؤاله، فجاز القضاء عليه،
كالغائب البعيد، بل هذا أولى؛ لأن البعيد معذور، وهذا لا عذر له. وقد ذكرنا فيما تقدم شيئا من
هذا.
الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف (19/ 101)
قوله فإن امتنع من الحضور سمعت البينة وحكم بها في إحدى الروايتين.
الحاوى الكبير ـ الماوردى (16/ 603)
 فإن قال المدعي ليست لي بينة القضاء على الغائب ، فقد اختلف أصحابنا : هل يكون هذا الامتناع
من الحضور كالنكول في رد اليمين على المدعي أم لا ؟ على وجهين : أحدهما : أنه لا يجعل نكولا ،
لأن النكول بعد سماع الدعوى ، وسؤاله عن الجواب ، فيصيران شرطين في النكول ، وهما
مفقودان مع عدم الحضور .
 والوجه الثاني : وهو أشبه أن يجعل كالنكول بعد النداء على بابه بمبلغ الدعوى وإعلامه بأنه
يحكم عليه بالنكول لوجود شرطي النكول في هذا النداء ، فعلى هذا يسمع القاضي الدعوى
محررة ، ثم يعيد النداء على بابه ثانية بأنه يحكم عليه بالنكول .

مصطفی جمال

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

24/جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

مصطفیٰ جمال بن جمال الدین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب