021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈاڑھی کٹوانے پر اسلام سے خارج ہونے کی قسم
71091قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

اگر کسی نے یہ جملہ کہا :اگر میں نے اب ڈاڑھی کٹوائی تو میں اسلام سے خارج ہوجاؤں" پھر اس کے بعد کچھ عرصہ تو صحیح رہا ،مگر ماحول کی وجہ سے تبدیلی آئی اور اس سے یہ کام سرزد ہوگیا۔ اب اس کےلیے کیا حکم ہے؟وہ پشیمان ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر اس شخص کا اعتقاد یہ ہو کہ داڑھی کٹوانا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا باعث ہے تو پھر داڑھی کٹوانے  سے یہ شخص اپنے اعتقاد کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیگا ،اس صورت میں تجدید ایمان اور تجدید نکاح لازم ہوگا ،اور یہ اعتقاد نہ ہو تو پھر یہ الفاظ قسم کے ہیں ،قسم توڑنے کی صورت میں قسم کا کفارہ لازم ہوگا،دس غریبوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے،یا ان کو متوسط درجے کے کپڑے دیدے،اگر یہ  استطاعت نہ ہو تو تین دن لگاتارروزے رکھے،درمیان میں ناغہ کرے گا تو دوبارہ تین روزے رکھنے پڑیں گے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 704):
وركنها اللفظ المستعمل فيها ۔
الفتاوى الهندية (2/ 54):
"ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرًا فهو يمين استحسانًا، كذا في البدائع.حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرًا؟ اختلف المشايخ فيه، قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرًا لرضاه بالكفر".
 
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 725):
(وكفارته) أی الیمین (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام (وإن عجز عنها) كلها (وقت الأداء) عندنا (صام ثلاثة أيام ولاء)

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

25/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب