021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
منگنی کی شرعی حیثیت
71026نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  اس مسئلے کے بارےمیں کہ زید نے اپنی بیٹی فاطمہ ،عمر کے بیٹے جنید کو بعوض پانچ لاکھ مہر کے عوض منگنی کی رسم میں دی اور یہ تمام سلسلہ کئی گواہوں کی موجودگی میں ہوا، اب زید اپنے اس فعل سے منکر ہے۔

نوٹ: کوئٹہ پشین بلوچستان کے لوگوں کے ہاں یہ عرف ہے کہ جب اپنی بیٹی کی منگنی کردے تو وہ شرعی نکاح مانا جاتا ہے ۔ صورت مسئلہ اس طرح ہوتا ہے کہ زید باقاعدہ یہ اعلان کرتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی فاطمہ جنید کو بعوض پانچ لاکھ مہر کی دی ہے اور اس رسم کو"کو زدہ "کہا جاتا ہے جس پر عمر جنید کا باپ رضا مندی کا اظہار کرتا ہے اور اس رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے باقاعدہ ایک علامت دی جاتی ہے جس کو دسمال یا استن کہا جاتا ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ فاطمہ اب جنید کی ہوگئی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کے لیے ایجاب وقبول اور گواہوں کا ہونا ضروری ہے جب تک فریقین کی طرف سے ایجاب وقبول گواہوں کی موجودگی میں نہ ہو، تب تک نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔ منگنی ایک عہد ہے کہ اس  کے بعد نکاح ہوگا باقاعدہ شرعی نکاح نہیں ہے ۔

لہذا مذکورہ مسئلہ میں زید کو چاہیے کہ منگنی کے عہد کو بلا عذر نہ توڑے اور اگر توڑ دیا تو اسے گناہ تو ہوگا، لیکن  اس صورت میں منگنی ختم ہوجائے گی اور لڑکے والوں پر مہر  وغیرہ کچھ بھی واجب نہیں ہوگا ۔لڑکی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ  ابن عابدین رحمہ اللہ :فقولہ: وینعقد أی النکاح  أی یثبت ویحصل بالإیجاب والقبول .
ثم قال : قولہ:( شرط حضور شاھدین) أی یشھدان علی العقد.(ردالمختار :/486،87)
قال العلامۃ نظام الدین رحمہ اللہ : وأما رکنہ :فالإیجاب والقبول کذا فی الکافی  .وقال أیضا:ینعقد بالإیجاب والقبول .(الفتاوی الھندیۃ :1/298)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ :وأمارکن النکاح فھوالإیجاب والقبول .
(بدائع الصنائع 2/299)
قال العلامۃ  الحصکفی رحمہ اللہ:وقیل ھو إیجاب ، ورجحہ فی البحر ، والثانی المضارع المبدوء بھمزۃ ،أو نون ،أو تاء ،کتزوجینی نفسک إذا لم ینو الاستقبال ،وکذا أنا متزوجک ،أو جئتک خاطبا لعدم جریان المساومۃ فی النکاح أوھل أعطیتنیھا إن المجلس للنکاح ،وإن للوعد فوعد.(درالختار:3/12)
وقال ابن عابدین رحمہ اللہ:لو قال :ھل أعطیتنیھا ،فقال :أعطیت، إن کان المجلس للوعد فوعد،وإن کان للعقد فنکاح.(ردالمحتار:3/12)

سردارحسین

دارالافتاء، جامعۃ الرشید ،کراچی

28/جمادالاولی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سردارحسین بن فاتح رحمان

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب