021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدکا وطنِ اصلی ضروری نہیں کہ بالغ بیٹے کا بھی وطنِ اصلی ہو
71070نماز کا بیانمسافر کی نماز کابیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں عرصہ درازتقریباًبیس سال سے کراچی میں مقیم ہوں اورپیدا بھی کراچی میں ہوا تھا،والدین کاگھر اب بھی کراچی میں ہے، میں گاؤں امان کوٹ﴿ جوکہ مہمند ایجنسی میں واقع ہے﴾ ایک سال کے لیے چلا گیاہوں اوروہاں میں ان شاء اللہ تعالی اہل وعیال کےساتھ ایک سال تک رہوں گا،کیونکہ وہاں پر ہمارے جائیدادیں ہیں  ان کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے،مردان میں بھی ہمارےپلاٹ ہیں جن میں ہمارے چچا رہائش پذیرہیں،وہاں بھی کبھی جاناہوتاہے۔

 مجھے پوچھنا یہ ہے کہ

 ١۔ان تین جگہوں میں میرا وطن ِاصلی کونساہے اوروطنِ اقامت کونساہے؟

۲۔  میں اس وقت  امان کوٹ میں رہائش پذیر ہوں، اگر میں مردان دو دن کے لیے جاؤں اورپھروہاں سےدس دن کے لیے کراچی آؤں تو میں وہاں یعنی مردان میں قصر کروں گا یا اتمام؟

۳۔قصرِصلوة میں اعتبارموضع ِ اقامت کا ہے یا جائیدادکا ؟

 ۴۔ وطنِ اصلی میں 15دن سےکم کا قیام ہو تو اتمام  کریگا یا قصر؟

 واضح رہے کہ میں بالغ ہوں اورمیرے والداب تک حیات ہیں ،امان کوٹ میں موجود جائیداد  اورمردان موجود پلاٹ میرے والد کے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١١۔ جب آپ کراچی میں پیداہوئے ہیں اوربیس سال تک اہل وعیال سمیت کراچی میں رہیں اورکراچی کو مستقل طورپرچھوڑا نہیں بلکہ ایک سال کے بعدواپس آنے کا پروگرام  بھی ہےتو آپ کا وطنِ اصلی کراچی ہے،امان کوٹ اورمردان نہیں کیونکہ  امان کوٹ اورمردان کی املاک آپ کے والد کی ہیں اورآپ بالغ ہونے کی وجہ سے ان کے تابع نہیں اورامان کوٹ جوآپ نے اپنے اہل وعیال کورکھاہے وہ عارضی ہے،صرف ایک سال کے لیے ہے، اس کے بعد آپ کا ارادہ کراچی آنے کا ہےلہذا امان کوٹ اورمردان آپ کے وطن اصلی نہیں ہوسکتے الا یہ کہ آپ کراچی چھوڑ کر ہمیشہ کےلیے ان میں سے کسی کو رہائش کےلیے اختیارکرلیں۔لہذا  مردان اورامان کوٹ آپ کے وطنِ اقامت  ہیں،وطن اصلی نہیں،لہذا اگرپندرہ دن کی نیت کرکے ان میں سے کسی جگہ آپ جائیں گے تو مقیم ہونگے اوراتمام کریں گےورنہ مسافررہیں گے اورقصر کریں گے۔

۲۔قصرکریں گے۔

۳۔ وطن اصلی میں اعتبار اس  کا ہے کہ آدمی کی پیدائش کہاں ہوئی ہے ،اس کے اہل وعیال کہاں رہتے ہیں،اس نے ہمیشہ رہائش کےلیے کس مقام کا انتخاب کیاہے؟ صرف جائیداد کا اعتبارنہیں اور نہ ہی غیر مستقل طورپر نیتِ اقامت کا وطنِ اصلی میں اعتبارہے۔

۴۔ اتمام کرے گا۔لہذا جب آپ کراچی آئیں گےتواگرچہ 15دن سے کم کےلیے آئیں آپ اتمام کریں گے ،کیونکہ کراچی آپ کا وطنِ اصلی ہے۔

حوالہ جات
في الدر المختار﴿ ۲/ ۶۱۴ط زکریا﴾
الوطن الأصلي هو موطن ولادتہ أو تأهلہ أو توطنہ، أي عزم علی القرار فیہ، وعدم ارتحال وإن لم یتأهل۔ (درالمختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، زکریا ۲/ ۶۱۴، کراچی ۲/ ۱۳۱)
وفي التنویر وشرحہ مع الشامیۃ  :
 (صلی الفرض الرباعي رکعتین ولو عاصیا بسفرہ حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامۃ نصف شہر بموضع صالح لہا) من مصر أو قریۃ ( فیقصر إن نوی) الإقامۃ (في أقل منہ) أي في نصف شہر ۔ التنویر وشرحہ  ۔ (۲/۶۰۳ ، ۶۰۶ ، باب صلاۃ المسافر ، البحرالرائق : ۲/۲۳۰ ، باب صلاۃ المسافر)
وفی الذیلعی﴿۱/ ۵۱۷﴾
ووطن الإقامۃ، وھو موضع الذی ینوی المسافر أن یقیم فیہ خمسۃ عشر یوما فصاعدا (زیلعي، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، زکریا ۱/ ۵۱۷، إمدادیہ ملتان ۱/ ۲۱۴)
وفی البحرالرائق
لأنھا إنما کانت وطنا بالأھل لا بالعقار؛ ألا تری! أنہ لو تأھل ببلدۃ لم یکن لہ فیھا عقار صارت وطنا لہ، وقیل: تبقی وطنا لہ؛ لأنھا کانت وطنا لہ بالأھل والدار جمعیا، فبزوال أحدھما لا یرتفع الوطن کوطن الإقامۃ تبقی ببقاء الثقل الخ  (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، زکریا ۲/ ۲۳۹، کوئٹہ ۲/ ۱۳۶، مجمع الأنہر، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۴۳، قدیم مصري ۱/ ۱۶۴)
وفی الشامیۃ (۱۳۱/۲):
(  قولہ الوطن الأصلی) ویسمٰی بالأھلی ووطن الفطرۃ والقرار ح عن القھستانی (قولہ أوتأھلہ) أی تزوجہ قال فی شرح المنیۃ: ولو تزوج المسافر ببلدولم ینوالأقامۃ بہ فقیل لایصیر مقیما وقیل یصیر مقیما،وھو الأوجہ ولو کان لہ أھل ببلدتین فأیتھما دخلھا صارمقیما، فأن ماتت زوجتہ فی إحداھما وبقی لہ فیہا دور وعقار قیل لایبقی وطنالہ اذ المعتبر الأھل دون الدار کمالو تاھل ببلدۃ واستقرت سکنالہ ولیس لہ فیھا دار… وقیل تبقی  (قولہ أو توطنہ) أی عزم علی القرار فیہ و عدم الارتحال وإن لم یتأھل، فلو کان لہ أبوان ببلد غیر مولدہ وھو بالغ ولم یتأھل بہ فلیس ذلک وطنالہ الااذا عزم علی القرار فیہ وترک الوطن الذی کان لہ قبلہ.

         سیدحکیم شاہ عفی عنہ

          دارالافتاء جامعۃ الرشید

           22/5/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب