71101 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کوایک بار کہا کہ میں آپ کو ایک طلاق دیتا ہوں ۔پھر کچھ مہینے بعد پھر کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور بیوی کو میکے بھیج دیا ۔پھر کچھ عرصہ بعد اسے لایا اور ایک دن اسے کہا کہ اگر تم نے فلاح کام کیا تو تم میری طرف سے فارغ ہو اور بیوی کے وہ کام کرنے کے بعد شوہر نے اپنی ماں ،بہن اور بھائیوں کے سامنے کہا کہ اب تم میری طرف سے فارغ ہو اور کئی بار دہرایا اور مہر جو کہ 10 ہزار تھا ،وہ بھی واپس کیا ۔پھر کچھ عرصہ بعد بیوی کو گھر واپس لایا اوراب کہہ رہا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ۔مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں کہ طلاق واقع ہوئی کہ نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،لہذا وہ اس سابقہ شوہر کے لیے مکمل طور پر حرام ہے۔ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا ۔ عدت مکمل ہونے کے بعد خاتون جہاں چاہے ، نکاح کرسکتی ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ :صریحہ ما لم یستعمل إلا فیہ ولو بالفارسیۃ کطلقتک ،وأنت طالق ومطلقۃ ،ویقع بھا أی بھذہ الألفاظ وما بمعناھا من الصریح واحدۃ رجعیۃ.
(درالمختار :4/458)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: لکن ثمانیۃ تقع بھا حال المذاکرۃ ،أنت خلیۃ ،بریۃ ،بتۃ بائن،حرام،اعتدی ،أمرک بیدک ،اختاری.(البحرالرائق:3/327)
قال العلامۃ قاضی خان رحمہ اللہ :وفی حالۃ مذاکرۃ الطلاق یقع الطلاق بثمانیۃ ألفاظ ولو قال لم أنو الطلاق لا یصدق قضاء ، وھی قولہ: أنت خلیۃ، بریۃ ......إلخ (فتاوی قاضی خان :1/312)
قال العلامۃ نظام الدین رحمہ اللہ :وھو کأنت طالق ،ومطلقۃ ،وطلقتک ،وتقع واحدۃ رجعیۃ وإن نوی الأکثر، أو الإبانۃ، أو لم ینو شیئا کذا فی الکنز.(الفتاوی الھندیۃ:1/389)
سردارحسین
دارالافتاء،جامعۃ الرشید،کراچی
27/جمادالاولی/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سردارحسین بن فاتح رحمان | مفتیان | ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب |