021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شادی کی بعض رسومات
71072نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

 کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ہمارے ہاں نسبت طے ہو جانےکےبعدشادی سےقبل چند رسومات اداکیےجاتےہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

  1. نسبت طےہوجانےکےبعد ایک ہفتہ کےاندر اندرایک تقریب رکھی جاتی ہےجس کوہمارے پشتوزبان میں "گڑھ ماتے"کہاجاتاہے،جس میں لڑکےوالےچندافرادکولےکرلڑکی والوں کےہاجاتےہیں اورپھرمٹھائی تقسیم کی جاتی ہےاوربعض اوقات دعوت کاانتظام بھی کیاجاتاہےاورپھرآخر میں ایک بندہ تلاوت بھی کرتاہےاورپھردعاکرکےمجلس برخاست کی جاتی ہے۔
  2. اس رسم کےبعد پھر منگنی کی تاریخ رکھی جاتی ہےجس میں لڑکے والےلڑکی والوں کےہاں اپنی رقم سے دعوت کاانتظام کرتےہیں اوربارات کی شکل میں لڑکی والوں کےہاں جاتےہیں جن میں ایک کثیرتعدادخواتین کی بھی ہوتی ہے اور پھر وہاں کھانا کھاتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد دولہاکونئےکپڑےاورپھولوں اورپیسوں کےہارپہنائےجاتےہیں اورہارپہنانےوالوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہےجن کودولہاوالے پہلےپہناچکےہوتےہیں اوراب اس کابدل اداکرنےکےلیےوہ  اسےپہناتےہیں۔
  3. منگنی میں جانےوالی ہرعورت اپنےساتھ تقریباتین کلوچینی کسی رومال میں لےجاتی ہےاوربدلےمیں لڑکےوالےاسی رومال میں دوپٹہ، جوڑایاکچھ رقم رومال میں باندھ کرواپس کرتےہیں، اگرکوئی خالی رومال واپس کردےتواس کوبراسمجھاجاتاہے۔
  4. اس کے ایک ہفتہ کےبعدلڑکی والےلڑکے والوں کےہاں چندمخصوص لوگوں کےساتھ کھانےکےہمراہ جاتےہیں اوردعوت کاانتظام ہوتاہے۔
  5. شادی سےقبل اگردرمیان میں عیدآجائےتواس لڑکےوالےلڑکی والوں کےلیےمختلف قسم کی اشیاءمثلاکپڑے،جوتے، کنگھی، اورضروریات کی مختلف اشیاء کچھ خواتین کےساتھ جماعت کی شکل میں لےجاتےہیں اوروہاں لڑکی والےان کےلیےدعوت کاانتظام کرتےہیں اورجب وہ واپس ہونےلگتےہیں تولڑکی والےآنےوالی ہرہرعورت کوکچھ پیسےبھی دیتےہیں۔

اب پوچھنایہ ہےکہ مذکورہ بالارسومات کاکیاحکم ہے؟کیاشریعت میں ان رسومات کاکوئی ثبوت ہےیانہیں ؟اگرکسی شخص کوان رسومات سےآگاہ کیاجائےاوراس کےباوجودوہ ان رسومات کاارتکاب کرےتواس کاکیاحکم ہے؟   بیّنواتوجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. خوشی کےموقع پرمیٹھائی تقسیم کرنا،یادعوت کرنافی نفسہ جائزہے،بشرطیکہ اس کو رسم نہ بنایاجائے یعنی اس کی پابندی نہ کی جائےکہ اگرکوئی اس کےخلاف کرےتواسےملامت کی جائےاوربراسمجھاجائے۔ایسےہی مجلس کےاختتام پرتلاوت کرنااگرمحض برکت کی غرض سےہو،اسےلازم نہ سمجھاجاتاہوتوجائزہے،لیکن اگراسےدین کاحصہ سمجھ کرضروری سمجھاجاتاہوتویہ بدعت ہےجوکہ جائزنہیں ہے۔
  2. اس دعوت کواگررسم بناکرضروری سمجھ کرکیاجاتاہوتواس کےناجائزہونےمیں کوئی شک نہیں ،جبکہ اس میں دیگرخرافات بھی پائی جاتی ہیں، نامحرم مردکےساتھ خواتین کااختلاط ہوتاہو، ہارپہنانےوالےاس غرض سےہارپہناتےہوں کہ آئندہ ان کواس سےزیادہ کاہارپہنایاجائےگا،یاپہلےان کوپہنایاگیاتھااب اس کاقرض چکارہےہیں  اوراس سےزیادہ پیسوں کاہارپہنارہےہوں تویہ سودجیسےعظیم گناہ کےزمرےمیں بھی آسکتاہے۔
  3. فضول رسم ہے۔اس کوختم کیاجائے۔اوراس غرض سےچینی دیناکہ اس سےزائدبدل کی امیدرکھی جائے درست نہیں ۔
  4. اس کوبھی اگررسم بناکرضروری سمجھاجاتاہوتوجائزنہیں،اس سےبچناچاہیے۔
  5. لڑکےوالوں کاعیدکےموقع پرلڑکی والوں کےلیےتحائف پیش کرنےکوبھی اگررسم بناکرضروری سمجھاجاتاہواورایسانہ کرنےوالوں کومطعون کیاجاتاہوتوجائزنہیں، ایساہی  اگرلڑکی والےان تحائف کاعوض دینےمیں اپنےکوپابندسمجھتےہوں تویہ بھی جائزنہیں۔ اس رسم کوختم کرناچاہیے۔البتہ اگرلڑکےوالےاس کوضروری سمجھےبغیرصرف اپنی خوشی سےتحائف پیش کردیں، نہ ہی لڑکی والوں سےاس کی عوض کی امیدرکھیں اورنہ ہی لڑکی والےاس کاعوض اداکرنےمیں اپنےآپ کومجبورسمجھیں توگنجائش ہےلیکن آگےچل کریہ بھی پکی رسم بن جائےگی لہٰذااس سےبھی اجتناب ہی بہترہے۔

 

حوالہ جات
  "قال رسول اللَّه صلّى اللهُ عليْه وسلم: «من أحدث فِي الإسلامِ حدثا فعليه لعنة اللَّه والْمَلائكة والنّاس أجْمَعين، لا يُقْبل منْه يوم القِيامة صَرف ولا عدل» قيل: يا رسول اللَّه فمَاالْحَدثُ؟ قَالَ: «مَنْ
قتَل نَفْسا بغيْر نفْسٍ، أَوِ امْتثل مثْلَة بغَيْر قود، أوابْتدع بدْعةً بغيْرِ سُنّةٍ»."
(مسندإسحاق بن راھویہ:377/1)
"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»."(صحیح مسلم:1343/3)
" وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون" حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ.
قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه ."( رد المحتار على الدر المختار :696/5)
"الْهَدايا الَّتي تأتِي في الْخِتان أَوْ الزِّفاف تَكُون لِمَن تأتِي بِاسمِه من الْمَختونِ أو العروسِ......
 (الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."
( درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:482/2)

ذیشان گل بن انارگل

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

27جمادالاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ذیشان گل بن انار گل

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب