021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خود رو گھاس کی خریدو فروخت کا حکم اور اس کا متبادل
71074کھیتی باڑی اور بٹائی کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

کیا  فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں لوگوں کی اپنی ملکیتی زمینوں پر خود رَو گھاس ہوتاہے، جس کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔بعض لوگ کٹائی کے بعد  بیچتے  ہیں،جبکہ بعض لوگ کھڑا گھاس   بیچ دیتے  ہیں۔ کیاخود رو  گھاس کی خریدو فروخت جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو جواز کی صورت کیا ہے؟ بینوا توجروا!

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو گھاس بغیر بیج بوئے اور بغیرکھادوپانی دیے اپنے آپ زمین میں اگے،وہ اصلاًمباح ہے، چاہے اپنی مملوکہ زمین میں اگے یا کسی کی زمین میں اگے۔لہٰذا کاٹنے سے پہلے اس کی خریدوفروخت جائزنہیں۔

    گھاس کی خریدو فروخت کی  جائزصورت یہ ہےکہ اسے کاٹ کر فروخت کیا جائے۔دوسری صورت یہ ہےکہ زمین کے جس حصے پر گھاس ہے، وہ حصہ گھاس کے خریدارکوکسی منفعت کے لیےاتنے دنوں کےلیے  کرایہ پر دے دیاجائے،جن میں وہ گھاس کاٹ سکے۔یاد رہے کہ کرایہ  پر زمین دینے کی صورت میں خریدار کو صرف گھاس کاٹنے یا کاشت کاری کا اختیار ہوگا،زمین سے درخت  کاٹنے کا اختیار نہ ہوگا،اور ان دنوں زمین کا مالک اس حصے میں ایسا تصرف نہیں کر سکے گا جس سے کرایہ دار کے کام میں رکاوٹ ہو۔

حوالہ جات
قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ :وأما الكلأ الذي ينبت في أرض مملوكة، فهو مباح، غير مملوك، إلا إذا قطعه صاحب الأرض، وأخرج فيملكه، هذا جواب ظاهر الرواية عن أصحابنا.
وقال بعض المتأخرين من مشايخنا  رحمهم الله : أنه إذا سقاه ،وقام عليه، ملكه ،والصحيح جواب ظاهر الرواية؛ لأن الأصل فيه هو الإباحة ،لقوله  صلی اللہ علیہ و سلم :الناس شركاء في ثلاث :الماء ،والكلأ ،والنار. والكلأ :اسم لحشيش ينبت من غير صنع العبد، والشركة العامة هي الإباحة، إلا إذا قطعه وأحرزه ؛لأنه استولى على مال مباح غير مملوك ،فيملكه كالماء المحرز في الأواني ،والظروف ،وسائر المباحات التي هي غير مملوكة لأحد.(بدائع الصنائع :6/193)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :الكلام في الكلأ على أوجه، أعمها :ما نبت في موضع غير مملوك لأحد. فالناس شركاء في الرعي والاحتشاش منه كالشركة في ماء البحار، وأخص منه: وهو ما نبت في أرض مملوكة بلا إنبات صاحبها، وهو كذلك إلا أن لرب الأرض المنع من الدخول في أرضه، وأخص من ذلك كله :وهو أن يحتش الكلأ أو أنبته في أرضه، فهو ملك له، وليس لأحد أخذه بوجه لحصوله بكسبه .(الدر المختار مع رد المحتار:6/440)
قال العلامۃ أبو الحسن علی بن أبو بکر المرغینانی رحمہ اللہ:(ويجوز استئجار الأراضي للزراعة)؛لأنها منفعة مقصودة معهودة فيها ……(ولا يصح العقد حتى يسمي ما يزرع فيها)؛لأنها قد تستأجر للزراعة ولغيرها، وما يزرع فيها متفاوت ،فلا بد من التعيين كي لا تقع المنازعة (أو يقول على أن يزرع فيها ما شاء)؛ لأنه لما فوض الخيرة إليه ارتفعت الجهالة المفضية إلى المنازعة.(الھدایۃ:3/233)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

   27جمادی الاولی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب