021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاقوں کاحکم
71203طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

شوہر نے اپنی بیوی کو گھر یلوناچاقی کی بناء پر گالی دیکر کہاکہ"اے گھن تیکوطلاق ڈتی اے"،"اے گھن تیکوطلاق ڈتی اے"،"اے گھن تیکوطلاق ڈتی اے" جس کا اردو  ترجمہ ہے  یہ لے میں نے تجھ کو طلاق دیدی ہے۔ طلاق دینے کے بعداس نے "مدرسہ عثمانیہ" میں آکردو علماء کے سامنے اور"خان گھڑ"کے مختلف علماء کے سامنے باربارکہا کہ میں نے ہوش وحواس میں تین مرتبہ طلاق دی ہے۔

بیوی کابیان

میں قرآن پاک سامنے رکھ کرحلفیہ کہتی ہوں کہ اس نے مجھے تین مرتبہ یہ الفاظ کہے جو اوپر مذکورہیں،لیکن اب یہ آدمی اپنے پہلے بیان کو تبدیل کرکے کبھی کہتاہے اس وقت میرا دماغ خراب تھا ،کبھی کہتاہے کہ مجھے دوستوں نے نشہ آورچیزیں کھلائیں جن کی وجہ سے میراہوش وحواس ختم ہوگیاتھااس وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی لیکن مجھے  یہ معلوم نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، بیان تبدیل کرکے اس نے کسی عالم سے فتوی بھی لکھوالیاہےجو اس کے ساتھ لف ہے اوراسی طرح غیر مقلدین سے بھی اس نے فتوی لیاہے،اب ان فتاوی کو بنیاد بناکرمیرے گھر والوں کو مجبورکررہاہے کہ میری بیوی کو طلاق نہیں ہوئی لہذا س کو میرے پاس بھیجو ۔تومجھےیہ پوچھنا ہے کہ

١۔ مذکورہ صورت میں شوہر کا مذکورہ قول معتبر ہوگا یا جو اس نے میرے سامنےطلاق کے الفاظ کہے اورپھر مختلف علماء کے سامنے اس کا اقرار کیاہے وہ معتبر ہوگا ؟

۲۔مجھے کتنی طلاقیں واقع ہوئیں اورمیں اس کے ساتھ دوبارہ رہ سکتی ہوں یا نہیں،قرآن حدیث اورفقہ حنفی کی روشنی میں جواب دیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 ﴿١،۲﴾بیوی کا مذکورہ بیان اگرواقع کے مطابق ہوتومسئولہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اورحرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے ،موجودہ حالت میں حلالہ کے بغیرمیاں بیوی میں  نہ رجوع ہوسکتا ہے اورنہ نکاح ۔

سوال کے ساتھ تو کوئی فتوی تو منسلک نہیں، البتہ عام طورغیر مقلدین سے لیا جانے والا فتوی جس میں تین طلاقوں کو ایک لکھاجاتاہے وہ ہماری نظر میں درست نہیں ،ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک نہیں، بلکہ تین ہی ہوتی ہیں، یہی مذہب قرآن ،احادیث سے ثابت اورصحابہ کرام ،ائمہ اربعہ، صحاح ستہ کے مصنفین اورامام ابن ماجہ کا ہے ،اس طرح کے فتاوی میں جن احادیث سے استدلال کیا جاتاہے ان کا غلط مفہوم لیاجاتا ہے ۔

حوالہ جات
وفی القران المجيد[البقرة: 230]
{ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ }
وفی احکام القرآن للشيخ ظفر احمد العثماني(رح):(۱/۵۰4)
﴿قوله تعالي: فان طلقها فلا تحل له حتي تنکح زوجا غيره﴾ اي انه اذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما ارسل عليها الطلاق مرتين فانها تحرم عليه حتي تنکح زوجا غيره اي حتي يطأها زوج اخر في نکاح صحيح.
فی سنن ابن ماجة (ج 2 / ص 152)باب من طلق ثلاثا في مجلس واحد 2024
حدثنا محمد بن رمح . أنبأنا الليث بن سعد ، عن إسحاق بن أبى فروة ،عن أبى الزناد ، عن عامر الشعبى  قال : قلت لفاطمة بنت قيس :حدثينى عن طلاقك . قالت : طلقني زوجي ثلاثا ، وهو خارج إلى اليمن فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .
سنن البيهقي الكبرى - (ج 7 / ص 339)
أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد الماليني أنا أبو أحمد عبد الله بن عدي الحافظ نا محمد بن عبد الوهاب بن هشام نا علي بن سلمة اللبقي ثنا أبو أسامة عن الأعمش قال كان بالكوفة شيخ يقول سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يرد إلى واحدة والناس عنقا وآحادا إذ ذاك يأتونه ويسمعون منه قال فأتيته فقرعت عليه الباب فخرج إلي شيخ فقلت له كيف سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول فيمن طلق امرأته ثلاثا في مجلس واحد قال سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق رجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يرد إلى واحدة قال فقلت له أين سمعت هذا من علي رضي الله عنه قال أخرج إليك كتابا فأخرج فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فقد بانت منه ولا تحل له حتى تنكح زوجا غيره قال قلت ويحك هذا غير الذي تقول قال الصحيح هو هذا ولكن هؤلاء أرادوني على ذلك.
رد المحتار - (ج 10 / ص 448)
وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - { فماذا بعد الحق إلا الضلال}  وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف.
الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.
وفی بدائع الصنائع - (3 / 187)
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل { فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره } وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
وفی أحكام القرآن للجصاص ج: 5  ص: 415
قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك".
بالعموم اس طرح کے فتاوی میں حضرت عبداللہ ابن عباس کی ایک حدیث سے استدلال کرکے کہاجاتاہے کہ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں مگرابن عباس کی اس حدیث سےاس مسئلہ میں استدلال کرنا اس لیے صحیح نہیں کہ خود ان کا فتوی اس کے خلاف ہےان کے ہاں تین تین ہی ہوتی ہیں، ایک نہیں اوریہ اصول ہے کہ حدیث کاراوی حدیث کامفہوم دوسرے لوگوں سے زیادہ سمجھتاہے۔راوی الحدیث ادری بمرادہ من غیرہ﴿تحفة الاحوذی 1/257﴾
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہکا طلاق ثلاثہ کے بارے میں مذکورہ فتوی درج ذیل حدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہےکہ جس سے بخوبی معلوم ہوجائےگاکہ تین تین ہی ہوتی ہیں، ایک نہیں ۔
 أخبرنا أبو أحمد المهرجاني، أنا أبو بكر بن جعفر المزكي، نا محمد بن إبراهيم البوشنجي، نا ابن بكير، نا مالك، عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن محمد بن إياس بن البكير، أنه قال: طلق رجل امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها ثم بدا له أن ينكحها فجاء يستفتي فذهبت معه أسأل له فهذه رواية سعيد بن جبير وعطاء بن أبي رباح ومجاهد وعكرمة وعمرو بن دينار فسألت أبا هريرة وعبد الله بن عباس عن ذلك فقالا له: " لا نرى أن تنكحها حتى تتزوج زوجا غيرك " قال: فإنما كان طلاقي إياها واحدة فقال ابن عباس: " إنك أرسلت من يدك ما كان لك من فضل "ومالك بن الحارث ومحمد بن إياس بن البكير ورويناه عن معاوية بن أبي عياش الأنصاري كلهم عن ابن عباس أنه أجاز الطلاق الثلاث وأمضاهن﴿ السنن الكبرى للبيهقي (7/ 552)
جب عبداللہ ابن عباس کے ہاں تین تین ہوتی ہے توپھران کی کسی اورحدیث سےیہ استدلال کرناکہ تین ایک ہوتی ہے ٹھیک نہیں،یہ کیسے ہوسکتاہے کہ راوی کا عمل اس کےاپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہوجائے؟لہذا عبداللہ ابن عباس کی اس حدیث کا ﴿جس کا حوالہ عام طورپردیاجاتاہے﴾وہ مطلب نہیں ہوسکتاجواستدلال کنندہ لینا چاہتاہے،ان کی حدیث کا صحیح مطلب وہ ہےجو  امام ابوزرعہ رحمہ اللہ علیہ نے ذیل کے کلام میں بیان کیاہے،وہ فرماتےہیں :
معنى قوله كأن الثلاث واحدة أن الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يطلقون واحدة فلما كان زمن عمر كانوا يطلقون ثلاثا ومحصله أن المعنى أن الطلاق الموقع في عهد عمر ثلاثا كان يوقع قبل ذلك واحدة لأنهم كانوا لا يستعملون الثلاث أصلا أو كانوا يستعملونها نادرا وأما في عصر عمر فكثر استعمالهم لها ومعنى قوله فأمضاه عليهم وأجازه وغير ذلك أنه صنع فيه من الحكم بإيقاع الطلاق ما كان يصنع قبله ورجح هذا التأويل بن العربي ونسبه إلى أبي زرعة الرازي وكذا أورده البيهقي بإسناده الصحيح إلى أبي زرعة أنه قال معنى هذا الحديث عندي أن ما تطلقون أنتم ثلاثا كانوا يطلقون واحدة قال النووي وعلى هذا فيكون الخبر وقع عن اختلاف عادة الناس خاصة لا عن تغير الحكم في الواحدة .
خلاصہ یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکرضی اللہ عنہ کے ادوار ،اورحضرت عمرضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں لوگوں میں حلم  بہت تھا جس کی وجہ سے وہ  تین کے بجائے ایک طلاق دینے پر اکتفاکرتے  تھے،مگریہ رواج اب تبدیل ہوگیا ہے اوراب لوگ حلم کی کمی کی وجہ سےجہاں ایک دینی چائیےوہاں تین طلاقیں  دیتے ہیں۔
مذکورہ حدیث سے اس لحاظ سے بھی استدلال ٹھیک نہیں کہ اس پر غیرمقلد علماء نے بھی درج ذیل اعتراضات اٹھائے ہیں ۔
١۔ اس حدیث میں مجلسِ واحد کا ذکرنہیں (فتاوی ثنائیة۲/۲١٦)
۲۔محدثین نے اس میں کلام کیاہے ۔(ایضا)
۳۔اس میں یہ تفصیل نہیں کہ ان مقدمات کا فیصلہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم اورحضراتِ شیخین رضی اللہ عنھما کے سامنے ہوتاتھا۔(ایضا)
۴۔یہ حدیث مسلم شریف کی متعہ والی حدیث کی طرح ہے کہ جس میں آیاہے کہ ہم حضوصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں متعہ کرتے تھے، ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، عمررضی اللہ عنہ نے ہمیں روک دیا(ایضا)
۵۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت پر محدثین نے اورکئی وجہ سے کلام کیاہے ۔(ایضا)
٦۔اصل بات یہ ہے کہ صحابہ ،تابعین وتبع تابعین سے لیکر سات سو سال تک کے سلف صالحین صحابہ وتابعین اورمحدثین سے تین طلاق کاایک مجلس میں واحد شمار ہونا ثابت نہیں ۔(ایضا)
۷۔محدٕٕثین نے مسلم کی حدیث مذکورکو شاذبتایا ہے ۔(ایضا)
۸۔ اس حدیث میں اضطراب ہے ۔(ایضا)
۹۔ مذکورحدیث مرفوع نہیں ۔(ایضا)
١۰۔یہ حدیث کتاب ،سنت ِصحیحہ ،اجماع صحابہ وغیرہ اور ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہذ احجت نہیں۔(ایضا)

    سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

       10/6/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب